بینکنگ سسٹم پر عوام کا بھروسہ اٹھ گیا؟

Jabri Irfan

نہایت متنازع حکومتی اقدام ’نوٹ بندی‘ کو تقریباً تین سال ہوچکے ہیں مگر اس کے مضر اثرات ابھی تک نہ صرف برقرار ہیں بلکہ اب لامتناہی معلوم ہونے لگے ہیں۔ میں اس کے لیے صرف اور صرف وزیراعظم نریندر مودی کو دوش نہیں دوں گا حالانکہ نوٹ بندی کے معاملے میں انھوں نے اپنی کابینہ اور ریزرو بینک کو تک اعتماد میں نہیں لیا تھا اور آمرانہ روش اختیار کرتے ہوئے جانے کون سے پوشیدہ مقاصد رہے جن کی تکمیل کی گئی۔ لیکن میرے خیال میں بینکنگ سسٹم کا یکایک کھوکھلا ثابت ہونا محض نوٹ بندی کے سبب نہیں ہے، جیسا کہ پنجاب اینڈ مہاراشٹرا کوآپریٹیو بینک کے جاریہ بحران کا معاملہ ہے۔ یہ نوٹ بندی کے باعث نہیں ہوا۔ یہ بدعنوانی، غبن، اور بینک فنڈز کے اعلیٰ عہدے داروں کی جانب سے من مانی استعمال کی وجہ سے ہوا ہے۔

نوٹ بندی نے خاص طور پر نیشنلائزڈ بینکوں کو نقصان پہنچایا یعنی بینک کاری کے ایسے ادارے جو آر بی آئی کی نگرانی میں تو ہوتے ہی ہیں، اس کے ساتھ حکومت ہند کی ضمانت بھی ان کو حاصل رہتی ہے، اس کے نتیجے میں کسٹمرس کا بینک پر بھروسہ بڑھ جاتا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف انڈیا (ایس بی آئی) اور آئی سی آئی سی آئی بینک کی مثال سادہ ہے۔ ان میں پہلی قومیایا ہوا بینک کاری ادارہ ہے جب کہ دیگر خانگی پرائیویٹ بینک ہے۔ اگر کوئی بینک ٹھپ ہوجائے تو عوام کے لیے نیشنلائزڈ بینک مفید ثابت ہوتا ہے کیوں کہ حکومت کھاتہ داروں کے فنڈز کی واپسی کی حتی المقدور کوشش کرے گی۔ اس کے برخلاف پرائیویٹ بینک میں کھاتہ داروں کے مال پر زیادہ جوکھم لگا رہتا ہے۔ عام طور پر گاہک برتر شرح سود کے لالچ میں خانگی اداروں کا رخ کرتے ہیں۔ کچھ کو بلاشبہ فی زمانہ کرنسی کے اعتبار سے معقول فائدہ ہوجاتا ہے اور کئی دیگر بڑا نقصان اٹھاتے ہیں۔

پی ایم سی بینک کا بحران یوں شروع ہوا کہ چند ہفتے قبل بینک نے اپنے کھاتہ داروں پر ’معاشی بم‘ گراتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ چھ ماہ میں صرف 1,000 روپئے ہی اپنے اکاونٹ سے نکال پائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی ممبئی میں واقع برانچ پر کسٹمرس کا ہجوم جمع ہوگیا، پولیس کے لیے لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہوا، آر بی آئی کو مداخلت پر مجبور ہونا پڑا۔ کھاتے داروں کے شدید ردعمل کو دیکھتے ہوئے رقم کی حد بڑھا کر 10,000 کی گئی، پھر چند دنوں بعد 25,000 روپئے فی چھ ماہ کی گئی۔ یہ 21 ویں صدی میں ترقی یافتہ بننے کا خواب دیکھنے والے ملک میں کیسے احمقانہ فیصلے ہورہے ہیں؟ بھلا بتائیے، وہ بے شمار کھاتے دار کیا کریں جنھوں نے اپنے لاکھوں روپئے مالیت کے کاموں کے لیے پی ایم سی بینک میں رقم جمع کر رکھی تھی، کسی کو مکان کی تعمیر کرنی ہوگی، کسی نے اولاد کی شادی کے لیے رقم ڈپازٹ کی تھی، حتیٰ کہ کئی دیگر کے ماہانہ گھریلو اخراجات کا انحصار اپنے پی ایم سی بینک فنڈز پر ہے۔ نہ وزیراعظم مودی نے نوٹ بندی کے وقت ایسے سوالات کے بارے میں کچھ سوچنا گوارا کیا تھا، نہ پی ایم سی بینک کے خاطیوں نے اپنے کھاتے داروں کے ممکنہ معاشی بحران پر کوئی دھیان دیا۔ دراصل پی ایم سی بینک کا بحران جمع شدہ فنڈز کا غلط استعمال کے سبب پیدا ہوا، جیسے معقول ضمانت کے بغیر بڑے بڑے قرضوں کی اجرائی۔ چنانچہ ایک مرحلہ ایسا آگیا کہ بینک اپنے کھاتے داروں کو ان کی اپنی رقم ان کی مرضی کے مطابق دینے سے قاصر ہوگیا۔

بینکوں کے غیرکارکرد اثاثہ جات (این پی ایز) معیشت پر بڑا بوجھ ہیں۔ یہ صرف گزشتہ ساڑھے پانچ سال کی دین نہیں ہے، بلکہ برسہا برس سے سیاستدانوں، صنعت کاروں، بڑے تاجرین، بینک کے اعلیٰ عہدے داروںکی کارستانیوں کا نتیجہ ہے۔ مختلف مفادات حاصلہ اور غیرواجبی سفارشات کی بنیاد پر بھاری قرضے جاری کردیئے جاتے ہیں، جن کو لیتے وقت ہی لینے والی کی نیت واپس ادائیگی کی نہیں ہوتی۔ لہٰذا، یہ قرضوں کو ایک مدت کے بعد این پی ایز کے زمرہ میں ڈال دیا جاتا ہے۔ وہ این پی ایز کی رقومات بینکوں کے پاس آئی کہاں سے تھیں؟ ظاہر ہے کھاتے دار ہی بینکوں کو معاشی طور پر طاقتور بناتے ہیں۔ جب این پی ایز کے سبب بینک کی معاشی طاقت کمزور ہوتی ہے تو حکومت اور بعض متعلقہ اداروں کی واقفیت سے بینکس بحران سے بچنے کے لیے مختلف اقدامات کرتے ہیں جیسے شرح سود میں الٹ پھیر، میعادی ڈپازٹس کے قواعد و شرائط میں تبدیلیاں، وغیرہ۔ تاہم، بعض اوقات خاطیوں کے لیے دیر ہوچکی ہوتی ہے اور وہ پی ایم سی بینک جیسے بحران کے شکار ہوجاتے ہیں۔

خلاصہ یہ کہ بینک کاری نظام پر عوام کا اعتماد بری طرح متزلزل ہوگیا اور مودی حکومت کی معاشی پالیسی نے مزید برا اثر ڈالا ہے۔ گزشتہ تین سال میں کئی بینکوں کو دیگر میں ضم کرنا پڑا کیوں کہ وہ پہلے کی طرح کامیابی سے تن تنہا کام کرنے سے قاصر ہوچکے تھے۔ انڈیا میں عوام میں یہی تاثر غالب ہے کہ بینکوں میں رقم جمع کرانا اب دانشمندی نہیں، کیوں کہ مودی حکومت کسی بھی وقت عوامی رقم پر ’ڈاکہ‘ ڈال سکتی ہے جیسے نوٹ بندی کے وقت ہوا۔ دیکھنے میں آرہا ہے کہ مختلف بچت اسکیمات سے لوگ اپنی رقومات نکال رہے ہیں۔ ایک طرف بینکس اور دیگر مالیاتی ادارے فنڈز سے محروم ہوتے جارہے ہیں، تو دوسری طرف مودی حکومت آر بی آئی فنڈز پر نظریں جمائے ہوئے ہے اور اندرون ایک سال دو علحدہ خطیر فنڈ ہتھیا چکی ہے جو ملک میں ایمرجنسی پر استعمال کے لیے جمع رہتے ہیں۔ مودی حکومت 5 ٹریلین ڈالر کی معیشت تک جلد از جلد پہنچنے کے بلند بانگ عزائم کا چرچا کررہی ہے۔ لیکن حقیقت میں ملک ’معاشی ایمرجنسی‘ سے دوچار ہے، یہ حکومتی حرکتوں سے صاف ظاہر ہے۔
۔۔۔

Find Out More:

Related Articles: