بے بس کجریوال نے مرکز پر وار کا موقع گنوادیا
جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے کیمپس میں اتوار کی رات دہلی پولیس کی اسٹوڈنٹس کے ساتھ ایسی جھڑپ ہوئی جیسے کہ قوم دشمن عناصر کے خلاف کارروائی کی جارہی ہو۔ درجنوں طلبہ زخمی ہوئے جن میں سے بعض کو شدید چوٹیں آئیں اور بعض دیگر اپنے چوٹوں سے جانبر نہ ہوسکے۔ دوسرے روز چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال نے کہا کہ (جامعہ ملیہ اسلامیہ کے) تشدد سے ہمارا تعلق نہں۔ یہ کتنی عجیب بات ہے نا؟
ہندوستان میں آپ کو ہر نوعیت کی عجیب و غریب چیز دیکھنے کو مل جائے گی۔ ریاست دہلی اور وہاں کا اینڈ آرڈر مرکزی حکومت کے کنٹرول میں رہنا بھی اس میں شامل ہیں۔ آپ ہی سوچئے کہ دہلی کے 70 اسمبلی حلقوں کے عوام نے بھاری اکثریت سے عام آدمی پارٹی کو پانچ سالہ حکمرانی کیلئے منتخب کیا، اور فاتح پارٹی نے کجریوال کو چیف منسٹر بنایا۔ اب ان کی میعاد کے آخری ہفتے یا بمشکل دو ماہ باقی ہیں۔ انھوں نے اقتدار حاصل ہونے کے بعد سے دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ دلانے کی بہت کوششیں کیں، لیکن لوک سبھا میں متواتر دو مرتبہ اکثریت سے کامیاب ہونے والی مودی حکومت نے کجریوال کی ہر کوشش کو کچل ڈالا۔ کجریوال کا بنیادی مطالبہ یہی رہا ہے کہ جب دہلی کے عوام نے کسی پارٹی کو حکمرانی کیلئے منتخب کیا اور حکومت قائم ہوئی ہے تو ان عوام کی سلامتی اور ان کے تحفظ کا ذمہ بھی اسی منتخبہ حکومت کے پاس ہونا چاہئے۔
سادہ الفاظ میں کجریوال حکومت کا مطالبہ رہا ہے کہ پولیس ڈپارٹمنٹ اور لا اینڈ آرڈر برقرار رکھنے کی ذمہ داری منتخب ریاسی حکومت کو ملنا چاہئے۔ لیکن نہیں۔ مودی حکومت کی منطق نرالی ہے۔ وہ کم درجہ کے ساتھ ریاست دہلی کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ شاید اس لئے کہ کبھی کبھی ان کی پارٹی بی جے پی کو بھی ایک اور ریاست کا اقتدار حاصل ہوتا رہے۔ مگر وہ پولیس اور لا اینڈ آرڈر کا معاملہ ریاست کو سونپنے تیار نہیں۔ ماضی میں دہلی کا درجہ تو مرکزی زیرانتظام علاقہ (یونین ٹیریٹری) کا بھی رہا، جسے اپ گریڈ کرتے ہوئے دہلی کو ریاست کا درجہ دیا گیا مگر ایسی لنگڑی ریاست کا کیا فائدہ جو قوم کا مستقبل یعنی اسٹوڈنٹس کو پولیس کے ہاتھوں کیمپس میں گھس کر لاٹھیوں، آنسو گیس کے شلوں اور رائفلوں کا مظاہرہ کرنے پر بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے؟
ڈپٹی چیف منسٹر منیش سیسوڈیا نے کہا کہ جامعہ کے کیمپس می بسوں کو آگ پولیس والوں نے لگائی، اسٹوڈنٹس نے نہیں۔ چیف منسٹر اور ان کے نائب سنگین واردات پر ایسے بیانات دے رہ ےہیں مگر عملی طور پر کچھ نہیں کررہے ہیں۔ ان کے پاس پیٹنٹ بہانہ ہے کہ پولیس کا محکمہ اور لا اینڈ آرڈر کی برقراری مرکز کے ذمہ ہے، ہمارے نہیں۔ میں کہتا ہوں کجریوال حکومت اتنا تو کرسکتی ہے کہ سارے دہلی کے عوام اور اس کے حدود میں قائم اداروں کی نگران کی حیثیت سے وزیراعظم، مرکزی وزیر داخلہ، لیفٹننٹ گورنر سے تحریری طور پر شکایت کرتی اور سپریم کورٹ سے رجوع ہوتی۔ اس سے موجودہ حالات میں مثبت نتیجہ برآمد ہونے کی امید تو کم ہی ہے مگر کجریوال حکومت کی عوام اور بالخصوص اسٹوڈنٹس کے تئیں سنجیدگی تو ظاہر ہوتی اور اس سے بڑھ کر سرکاری ریکارڈ میں محفوظ تو ہوتا کہ ایسے حالات رونما ہونے پر ریاستی حکومت کو مکمل اختیارات حاصل نہ ہونا کتنا نقصان دہ ہوا ہے۔
کجریوال سے ایسا نہیں ہوسکتا تو جس دیانتداری اور انصاف پسندی کی دہائی دیتے ہوئے وہ اقتدار تک پہنچے ہیں، اسی کو ملحوظ رکھتے ہوئے مرکز سے احتجاج کا اظہار کرتے ہوئے استعفا دے دیتے۔ ویسے بھی ایک دو ماہ میں تازہ انتخابات ہونے والے ہیں۔ عین ممکن ہوتا کہ کجریوال کو دہلی کے عوام ایک بار اور اقتدار سونپ دیتے۔
ٌ ٌ ٌ
Find Out More: