تندرستی ہزار نعمت ہے۔ یہ قول بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ تندرستی کس قدر قیمتی ہوتی ہے۔ تاہم، خاص طور پر تیزی سے بدلتی شہری زندگی نے شہریوں کی صحت پر خاصا اثر ڈالا ہے۔ شاید کوئی شہری گھرانہ ہو جس کے مکینوں میں کوئی نہ کوئی صحت کے مسائل سے دوچار نہ ہو۔ صحت کے مسائل کے ساتھ ہی دواخانوں کا تصور ذہن میں ابھر آتا ہے۔ اس معاملے میں دو متبادل ہوسکتے ہیں، سرکاری یا خانگی اسپتال۔ شہر حیدرآباد میں ایسی عجیب صورتحال ہوگئی ہے کہ سرکاری ہاسپٹل غریبوں کے دواخانے کہلائے جانے لگے اور خانگی اسپتالوں کو امیر لوگ جاتے ہیں۔
اگر معاملہ یہیں تک رہتا تو شاید پھر بھی ٹھیک تھا لیکن دو مختلف وجوہات نے دونوں قسم کے اسپتالوں کو لگ بھگ تمام شہریوں کیلئے بے مصرف بنا دیا ہے۔ سرکاری اسپتال میں بہترین انفراسٹرکچر ہوتا ہے، ادویات خالص ہوتی ہیں اور علاج کفایتی یا مفت بھی ہوجاتا ہے۔ تاہم، دواخانے کے اندرون صاف صفائی، داخلی انتظام اور کرپشن سرکاری دواخانوں کی تمام اچھی خصوصیات کو ماند کردیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ شہر میں قائم سرکاری دواخانے صرف اضلاع اور دیہات سے آنے والے مریضوں کے لیے مختص ہوگئے ہیں۔
خانگی دواخانوں کا مختلف حال ہے۔ وہاں صاف صفائی اور ڈسپلن کچھ زیادہ ہی دیکھنے میں ملیں گے مگر خانگی اور بالخصوص کارپوریٹ ہاسپٹلس علاج کے لیے جس طرح بھاری رقومات اینٹھ رہے ہیں وہ متوسط طبقہ تو چھوڑئیے کئی امیر لوگوں کے لیے تک وبال بن رہا ہے۔ ایسے ہاسپٹلس کی من مانی پر باس پرس کرنے والا کوئی نہیں، وہ من چاہے چارجس وصول کرتے ہیں اور معیار کا بہانہ بناتے ہیں۔ بعض خانگی ہاسپٹلس کا اتنا غیرانسانی اور ظالمانہ رویہ ہے کہ وہ سخت مریض دم توڑنے پر بھی اسے وینٹی لیٹر پر برقرار رکھ کر اپنا بل بڑھاتے جاتے ہیں۔ ایسے دواخانوں میں غیرضروری ادویات اُن کے مخصوص ڈسپنسری سے منگوائی جاتی ہیں جس کے استعمال کا کوئی نگران نہیں ہوتا۔ بتایا جاتا ہے کہ ادویات کی واپسی کے ذریعے بھی بدعنوانی ہوتی ہے۔ صفائی اور وائرل اثر کے نام پر قریبی رشتہ داروں کو تک مختلف وارڈس اور آئی سی یو وغیرہ میں عملی طور پر اچھوت بنا دیا جاتا ہے۔ ان سب مرحلوں کے بعد صحت کے اعتبار سے مریض کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آتی۔
ان حالات میں نہ صرف حکومتوں بلکہ سماج اور غیرسرکاری تنظیموں کو بھی سرگرم ہونا چاہئے۔ ہاسپٹلس میں کرپشن اور مریضوں کے ساتھ ناروا سلوک پر سختی سے کام لیا جائے۔ کسی بھی دواخانہ کو حکام اچانک دورہ کرتے ہوئے صورتحال کا جائزہ لیا کریں۔ عوام کا بھی فرض ہے کہ کسی بھی کرپشن کے فروغ کا حصہ نہ بنیں اور جہاں کہیں کوئی بدعنوانی پائیں تو اسے حکام کے علم میں لانے کی حتی المقدور کوشش کریں۔