بے شرمی کی حد ہے یا نہیں؟

Jabri Irfan
بھارت میں ایمرجنسی کے وقت میں نے اسکول جانا شروع کیا تھا۔ اس لئے یاد نہیں کہ ملک میں سیاسی صورتحال کیا تھی؟ لا اینڈ آرڈر کا کیا حال تھا؟ جہدکاروں، قلمکاروں، دانشوروں، اپوزیشن قائدین کے ساتھ کیسا سلوک ہوا؟ عوام کو کیا کیا پریشانیاں اٹھانا پڑا؟ ہوش سنبھالا تو معلوم ہوا کہ وہ وزیراعظم اندرا گاندھی کی حکومت کا اقدام تھا اور صدرجمہوریہ فخر الدین علی احمد نے اسے منظوری دی تھی۔ یہ بھی سنا کہ سال 1975-77کے دوران 18 ماہ کی ایمرجنسی میں اپوزیشن والوں اور پریشانی اٹھانے والے لوگوں نے اندرا گاندھی پر جم کر تنقیدیں کئے۔ تب خانگی میڈیا اخبارات تک محدود تھا۔ آل انڈیا ریڈیو سرکاری زیرانتظام تھا اور کلر ٹیلی ویژن تو دور کی بات، بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی بھی چند شہروں تک محدود تھا۔ اس لئے اندرا گاندھی کے خلاف جتنی بھی باتیں ہوئیں، ان کی رسائی محدود رہی۔

اندرا گاندھی نے ایمرجنسی کے بعد جنرل الیکشن بری طرح ہارا، مگر دو سال میں ہی شاندار انداز میں اقتدار پر واپسی کی اور اکٹوبر 1984 میں قتل تک وزیراعظم برقرار رہیں۔ ایمرجنسی کی مدت سے شمار کریں تو تقریباً 40 سال بعد نومبر 2016 میں ’نوٹ بندی‘ کے بعد سے سارے ملک میں نریندر مودی کے خلاف جو تنقیدوں، گالی گلوج، ہتک آمیز کارٹونس، توہین آمیز فقروں اور طرح طرح کے طنزیہ القاب کا جو سلسلہ چل پڑا، وہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ مودی نے متعدد بڑے وعدوں کے ساتھ اقتدار تک رسائی حاصل کی، لیکن حکومت ہاتھ لگتے ہی الٹا عوام اور ووٹروں کی عملاً ہنسی اڑانے لگے کہ بیرون ملک سے کالادھن لاکر ہر شہری کے بینک اکاونٹ میں 15، 15 لاکھ روپئے جمع کرانا جیسی باتیں ’محض انتخابی جملے‘ تھے۔

بھارت کے عوام اور ووٹرز کچھ حد تک بزدل اور بھولے ہیں۔ سیاسی لیڈروں کے جھانسے میں جلد پھنس جاتے ہیں۔ نوٹ بندی کے آٹھ ماہ بعد وزیراعظم مودی نے ناقص جی ایس ٹی (جنرل سرویسیس اینڈ ٹیکس) لاگو کردیا، جس نے چھوٹے کاروبار کا ستیاناس کردیا۔ بے شمار لوگ روزگار سے محروم ہوئے۔ ایسے احمقانہ اقدامات کے ساتھ ساتھ لنچنگ، ہندو۔مسلم نفرت، پاکستان اور قومی سلامتی کے نام پر ماحول کو وقفہ وقفہ سے گرمایا جاتا رہا۔ چنانچہ جنرل الیکشن 2019 میں بھارتی ووٹرز دوبارہ جھانسے میں آگئے اور مودی کا اقتدار برقرار رہا۔

اِس مرتبہ مودی نے اپنے گجراتی رفیق کار امیت شاہ کو وزیر داخلہ کی بڑی اہم ذمہ داری سونپ دی۔ وہ احمقانہ پن میں مودی سے کم نہیں اور بہت تیزی سے بہت کچھ حاصل کرلینا چاہتے ہیں۔ بی جے پی حکومت کی نئی میعاد کے بمشکل چھ ماہ میں مودی۔شاہ نے مل کر پارلیمنٹ، سپریم کورٹ اور دیگر کئی دستوری اداروں کا مذاق بنا کر رکھ دیا۔ آخرکار وہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) لاگو کرنے کی سنگین غلطی کربیٹھے۔ بس یہیں سے ان کی عملاً الٹی گنتی شروع ہوگئی۔ 15 ڈسمبر سے ملک کے طول و عرض میں مخالف سی اے اے، این پی آر اور این آر سی احتجاج جاری ہے، جس کا نمائندہ شاہین باغ دہلی بن کر ابھرا ہے۔ 

مودی۔ شاہ نے اپنی گھٹیا سیاست کے مطابق سوچا کہ شاہین باغ دہلی میں مسلمانوں کے احتجاج کا دہلی اسمبلی الیکشن میں فائدہ اٹھایا جائے۔ انھوں نے شاہین باغ احتجاج سے متعلقہ عوام کو دشواری کے باوجود اسے ہٹانے یا احتجاجیوں سے ٹھوس بات چیت کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ وزیراعظم ، وزیر داخلہ سے لے کر ہر چھوٹے بڑے لیڈر نے ماحول میں ہندو۔ مسلم فرقہ پرستی کا زہر پھیلانے کی کوشش کی تاکہ اروند کجریوال کی عام آدمی پارٹی حکومت سے اقتدار چھین سکیں۔ مگر دہلی کے ووٹروں نے منگل 11 فبروری کو سارے فرقہ پرستوں کو ایسا کرارا جھٹکا لگایا کہ وہ ابھی تک سنبھل نہیں پائے ہیں۔ 

اس کے بعد واٹس ایپ، فیس بک، ٹوئٹر جیسے سوشل میڈیا نٹ ورکس پر مودی اور شاہ سے لے کر سارے زعفرانی ٹولے کی ہتک کرنے میں نت نئے طریقے اختیار کئے جارہے ہیں۔ کسی وزیراعظم اور کسی مرکزی حکومت کو اس قدر گالیاں نہیں پڑیں، جیسے آج کل ہورہا ہے۔ اس کے باوجود سارا برسراقتدار طبقہ ڈھیٹ بنا ہوا ہے اور انتخابی شکست کے بہانے ڈھونڈ رہا ہے۔ وزیر فینانس پارلیمنٹ میں ڈھٹائی سے کہتی ہیں کہ معیشت میں بہتری کے آثار ہیں۔ یہ کس مٹی کے بنے ہیں کہ انھیں ’آن ریکارڈ‘ اتنا بڑا جھوٹ بولتے ہوئے شرم نہیں آتی؟ خود حکومت کے مقررہ ماہرین معاشیات اور عالمی ادارے مسلسل تشویش ظاہر کررہے ہیں کہ بھارتی شرح ترقی زوال پذیر ہے، بے روزگاری عروج پر ہے، مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ پھر بھی نرملا سیتارامن کو کچھ سمجھ نہیں آرہا؟ اب بیچاری وزیر فینانس کو کیا کہیں جنھوں نے پیاز کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے پر اپنے ردعمل میں کہا تھا کہ وہ تو پیاز کھاتی ہی نہیں۔ واہ۔

مودی اور شاہ کے جھوٹ اور دعووں کا کیا پوچھنا؟ مودی دھڑلے سے عوامی ریلی میں کہتے ہیں کہ این آر سی کا حکومت میں تذکرہ ہی نہیں ہوا۔ ادھر پارلیمنٹ میں وزیر داخلہ واضح اعلان کرتے ہیں کہ سارے ملک میں این آر سی لاگو کیا جائے گا، بلکہ وہ ’کرونالوجی‘ سمجھاتے ہیں کہ پہلے سی اے اے، پھر این پی آر اور اس کے بعد این آر سی آئے گا۔ یکم فبروری کو بکواس مرکزی بجٹ پر مودی اپنی وزیر فینانس کو شاباشی دیتے ہیں۔ شاہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وادی کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ہے۔ شاید اسی لئے تین سابق چیف منسٹروں کے ساتھ متعدد سیاسی قائدین کو اگست سے نظربند رکھا ہوا ہے؟ بہرحال مجھے لگتا ہے، اوپر والا کسی کو سنبھلنے اور سدھرنے کیلئے چند مواقع دیتا ہے۔ اس کے بعد حجت تمام ہوجاتی ہے۔ میرے خیال میں مودی۔ شاہ اور دیگر کیلئے حجت تمام ہوچکی۔ اب وہ ذلت کے ساتھ اپنے زوال کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
٭٭٭

Find Out More:

Related Articles: