امیتابھ بچن میرے پسندیدہ اداکاروں میں سے ہیں۔اس لئے نہیں کہ قد دراز ہے، محض اس لئے نہیں کہ آواز بھاری و رعب دار ہے، اس لئے بھی نہیں کہ مرکزی کردار والے ایک درجن فلموں میں تقریباً سبھی ناکام ہونے کے باوجود چار سال کے عرصے میں بالی ووڈ میں شہرت کی بلندی تک پہنچ گئے اور سوپر اسٹار راجیش کھنہ کو ہمیشہ کیلئے پیچھے چھوڑ دیا۔ امیتابھ بچن نے اپنے لگ بھگ 50 سالہ فلمی کریئر میں مختلف نوعیت کے جتنے رول ادا کئے، چاہے وہ مرکزی ہوں کہ معاون .... ایسا شاید ہی کسی نے کامیاب اداکاری اور باکس آفس پر کامیابی کے ساتھ کیا ہوگا۔ مرکزی کردار، معاون کردار، مہمان کردار، آواز کا تعاون وغیرہ کی تمام چھوٹی بڑی فلموں کو شمار کریں تو امیتابھ بچن 190 سے زائد فلمیں کرچکے ہیں۔ انڈسٹری میں ایسے اسٹارز ہیں جنھوں اس سے کہیں زیادہ فلمیں کئے لیکن مجموعی اداکاری اور باکس آفس پر کامیابی کے اعتبار سے وہ امیتابھ بچن سے بہت پیچھے ہیں۔ شاید اسی لئے میں امیتابھ بچن کو زیادہ پسند کرتا ہوں مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ دیگر باصلاحیت اسٹارز اور ان کی فلموں کی میرے پاس قدر نہیں۔
میرا ماننا ہے کہ انڈیا میں فلمیں شروع سے ہی عوام و خواص کے لیے ہلکی پھلکی تفریح کا ذریعہ رہی ہیں ، اکثر لوگ ہفتے بھر کی تھکن اتارنے کے لیے فلمیں دیکھا کرتے ہیں، بھارت کی پہلی فلم راجہ ہریش چندر (1913ئ) اور پہلی بولتی فلم عالم آراء(1931) سے لے کر 76 سالہ امیتابھ بچن کے شروعاتی دور تک ہندوستانی فلموں میں کچھ نہ کچھ سماجی پیغام دینے کی کوشش کی جاتی رہی۔ البتہ ایک دو عنصر مشترک اور غالب رہتے کہ فلموں کی کامیابی میں موسیقی اور گیتوں کا بڑا دخل ہوتا۔ کئی ہیرو اور ہیروئن محض فلم کی کہانی اور گانوں کے بل بوتے پر کامیاب کہلائے۔ کامیڈی کرنا ہیرو یا ہیروئن کے بس کی بات نہ ہوتی بلکہ اس کے لیے خاص کامیڈین کا ہونا لازمی ہوتا جیسے محمود، جگدیپ، نریندر ناتھ، وغیرہ۔
اس پس منظر میں امیتابھ بچن نے 27 سال کی عمر میں فلم سات ہندوستانی (ریلیز: 7 نومبر 1969) سے کریئر شروع کیا اور وہ زائد از 30 سال کی عمر میں پہلی بڑی کامیابی حاصل کرتے ہوئے نہ صرف کئی دہوں سے جاری روش کو بدل کر فلم زنجیر (ریلیز: 11 مئی 1973) سے ’اینگری ینگ مین‘ کہلائے، بلکہ انھوں نے ثابت کیا کہ ہیروئن کو ابھارے بغیر، ہیرو گیت گائے بغیر، اچھی کہانی، خالص اداکاری اور مناسب ایکشن کے ساتھ بھی فلم سوپر ہٹ ثابت ہوسکتی ہے۔ اس کے بعد امیتابھ بچن نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ وہ عروج کی طرف رواں دواں ہوگئے اور راجیش کھنہ کے چار سال کے مقابل زائد از ایک دہے تک سوپر اسٹار رہے۔ 1970 اور 1980 کے دہے میں ہندی فلموں پر ان کے مکمل غلبہ کو دیکھتے ہوئے بی بی سی (برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن) نے انھیں ’اسٹار آف دی ملینیم‘ ایوارڈ پیش کیا۔
میں نے فلم عالم آراءسے لے کر امیتابھ بچن کے دور کا ذکر کیا ہے۔ اس دوران افسانوی اداکار دلیپ کمار (یوسف خان) کا مثالی دور بھی آتا ہے۔ یہ بات بیشتر قارئین نے سنی یا پڑھی ہوگی کہ امیتابھ بچن بالی ووڈ میں دو شخصیتوں سے بے حد متاثر ہیں .... دلیپ کمار اور وحیدہ رحمن۔ 96 سالہ دلیپ کمار عمر میں امیتابھ بچن سے 20 سال بڑے ہیں، یعنی ایک نسل کا فرق ہے۔ شاید اسی کو ملحوظ رکھتے ہوئے دونوں کو فلم شکتی (1982) میں باپ اور بیٹے کے رول میں پیش کیا گیا۔ امیتابھ بچن نے اپنے کریئر میں شروع سے ہی کہا ہے کہ انھوں نے دلیپ کمار کی فلموں کو دیکھ کر بہت کچھ سیکھا ہے، اور وہ سینئر اداکار کو اپنا گرو اور اپنے آپ میں اداکاری کا ادارہ مانتے ہیں۔ کمائی، شہرت میں دلیپ کمار سے آگے رہنے اور ہنوز شوبز میں اپنی بڑی مانگ ہونے کے باوجود امیتابھ بچن کی دلیپ کمار کے معاملے انکساری شاید ہر کسی کو ضرور متاثر کرے گی۔ 81 سالہ وحیدہ رحمن کے تعلق سے امیتابھ بچن نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے۔ دونوں نے فلم ریشماں اور شیرا (1971) سے تقریباً نصف درجن فلموں میں مختلف رشتوں کے رول ادا کئے۔
امیتابھ بچن کی تین درجن بہت اچھی اور اچھی فلمیں پیش ہیں: آنند (1971)، زنجیر (1973)، مجبور (1974)، دیوار ، شعلے (دونوں 1975)، کبھی کبھی، عدالت (دونوں 1976)، خون پسینہ (1977)، ترشول ، ڈان ، مقدر کا سکندر (تینوں 1978)، قلی (1983)، مسٹر نٹور لال، کالا پتھر (دونوں 1979)، لاوارث، سلسلہ (دونوں 1981)، دیش پریمی، نمک حلال، شکتی (تینوں 1982)، قلی (1983)، شرابی (1984)، آخری راستہ (1986)، شہنشاہ (1988)، میں آزاد ہوں (1989)، اگنی پتھ (1990)، ہم (1991)، خدا گواہ (1992)، بڑے میاں چھوٹے میاں (1998)، سوریہ ونشم ( 1999)، محبتیں (2000)، باغبان (2003)، خاکی (2004)، بلیک، سرکار (دونوں 2005) ، چینی کم (2007)، بھوت ناتھ (2008)، پا (2009)، پیکو (2015)۔