مودی 2.0 کو کیا نہیں کرنا چاہئے؟
عرفان جابری
نریندر مودی 2014ءمیں متعدد بلند بانگ دعووں کے ساتھ مرکزی اقتدار پر آئے تھے۔ تاہم، پانچ سالہ میعاد میں انھوں نے شاید ہی کوئی ٹھوس وعدہ پورا کیا۔ معیشت، بے روزگاری، فرقہ وارانہ بھائی چارہ جیسے محاذوں پر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) زیرقیادت حکومت نے قوم کو بے حد مایوس کیا۔ انھیں نوٹ بندی اور گڈز اینڈ سرویسیس ٹیکس (جی ایس ٹی) جیسے ناقص و من مانی اقدامات سے زک پہنچایا۔ اس طرح پانچ سالہ میعاد گزر گئی۔ اپوزیشن میں مودی کے ہم پلہ پُرکشش، ذہین اور چالاک سیاستدان نہ ہونے کے سبب بی جے پی 2019 الیکشن انتخابی موضوعات بدلتے ہوئے زیادہ بڑے مینڈیٹ (خط اعتماد) کے ساتھ جیت گئی۔
اب مودی 2.0 حکومت قائم ہے۔ اس نے ہندوستان کو بڑی معاشی طاقت بنانے اور ملک میں تمام طبقات کی ترقی کو حقیقت میں بدلنے کا عہد کیا ہے، جو وزیراعظم مودی کے سابقہ نعرہ ”سب کا ساتھ، سب کا وکاس“ میں ”سب کا وشواس“ سے ظاہر ہوتا ہے۔ سیاست میں کہنے اور عمل کرنے میں اکثر و بیشتر بڑا فرق رہتا ہے۔ مودی حکومت کا اس معاملے میں ٹریک ریکارڈ خراب ہے۔ تاہم، اپنی دوسری میعاد کی شروعات میں انھوں نے بعض حوصلہ افزاءبیانات دیئے اور تبصرے کئے ہیں۔ مگر لگتا ہے بی جے پی کے تمام پارٹی قائدین اور ارکان مقننہ کو مودی کی باتوں سے اتفاق نہیں ہے۔ اس لئے لوک سبھا میں رکنیت کی حلف برداری سے ہی تاریخ میں پہلی مرتبہ مذہبی رنگ آمیزی دیکھنے میں آئی۔ اس طرح کا رجحان مودی 2.0 کو کبھی اپنا عہد پورا کرنے نہیں دے گا۔
بی جے پی کے قیام سے ہی اُس کے ایجنڈے میں ایک ، دو نہیں کئی متنازع موضوعات شامل رہے ہیں، جیسے ایودھیا کے پیچیدہ مسئلہ کو بزور طاقت حل کرلینا، کشمیر کے خصوصی موقف کو ختم کردینا، ملک میں یکساں سیول کوڈ نافذ کرنا، وغیرہ۔ اب حالیہ عرصے میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی حمایت سے ملحقہ تنظیموں اور خود بی جے پی نے عوام کے رہن سہن اور کلچر میں بھی دخل دینا شروع کردیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ غیرہندو شہری بھی وہی کھائے، پئے، پہنے اور اسی طرح رہے جیسے ہندووں کا عمل ہے۔ یہ کسی دور میں ممکن ہوا ہے اور نہ کبھی ہوگا!
مودی 2.0 واقعی کامیاب حکومت کے طور پر تاریخ میں نام درج کرانا چاہتی ہے تو اسے سب سے پہلے اقلیتوں کو اعتماد میں لینا ہوگا کیوں کہ امن و بھائی چارہ کے ماحول کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ انتشار کا ماحول ہو تو بیرونی سرمایہ کاری گھٹتی جاتی ہے۔ نئے وزیر داخلہ اور حکومت کے عملاً نمبر 2 لیڈر امیت شاہ جموں و کشمیر کے دورے پر ہیں، جہاں گورنر راج نافذ ہے۔ ذرائع سے معلوم ہوا کہ وہاں خاص طور پر کشمیر میں اسمبلی حلقوں کی نئی حدبندی کا منصوبہ ہے تاکہ بی جے پی اپنے ریاستی اقتدار کے امکانات کو بڑھا سکے۔ آسام میں مودی حکومت پہلی میعاد سے ہی نیشنل سٹیزن رجسٹر (این آر سی) کے چکر میں پڑی ہے جسے اب پورے ملک میں لاگو کرنے کے عزائم ہیں۔ مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کی حکومت کو متزلزل کرنے کے لیے تمام سیاسی ہتھکنڈے اپنائے جارہے ہیں۔ موجودہ مودی حکومت اس طرح کی سرگرمیوں میں الجھ جائے تو پھر اس کا ناکام حکومت ہونا اور ملک کا خرابہ ہونا عجب نہیں ہوگا۔