جموں و کشمیر کے بارے میں دستورِ ہند کے آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے چند روز بعد وزیراعظم نریندر مودی نے جمعرات کو ٹی وی کے ذریعے قوم سے خطاب میں حکومت کے اقدام کا بھرپور دفاع کیا اور بعض باتوں سے قوم کو واقف کرایا ہے۔ انھوں نے ادعا کیا کہ اس آرٹیکل کی وجہ سے کشمیر یا ہندوستان کو اس کے سواءکچھ نہیں ملا کہ علحدگی پسندی کے نظریات اُبھرے، دہشت گردی پیدا ہوئی اور پاکستان اسے آلہ کار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے سرحدی ریاست کو غیرمستحکم کرنے کوشاں رہا ہے۔
حکومت کو پارلیمنٹ میں بالخصوص راجیہ سبھا میں جس طرح پارٹی خطوط سے قطع نظر تائید حاصل ہوئی، اس کے پیش نظر مودی کا آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے اقدام کی بھرپور مدافعت کرنا درست ہے کیوں کہ واقعی ان کی حکومت کو اکثریتی ارکان پارلیمان کی حمایت حاصل ہوئی ہے۔ اس سے ہٹ کر یہ آرٹیکل کی وجہ سے وادی کشمیر میں علحدگی پسند عناصر اور دہشت گردی کا فروغ پانا کچھ سمجھ نہیں آیا ہے۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ پاکستان اس آرٹیکل کو استعمال کرتے ہوئے ناپاک سرگرمیاں انجام دیتا رہا تھا۔ اور اب آرٹیکل کی منسوخی کے ساتھ حالات میں ترقی ہوگی؟
وزیراعظم کے خطاب میں دو باتیں اچھی معلوم ہوئیں کہ انھوں نے وادی میں بے روزگاری کو ختم کرنے جابس فراہم کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ یہ وعدہ انتخابی نہیں بلکہ وزیراعظم کے منصب پر رہتے ہوئے کیا گیا ہے، اس لئے ان کے اب تک کے ٹریک ریکارڈ سے مختلف ہے۔ مودی نے کشیدہ وادی کشمیر میں جہاں دوشنبہ 12 اگست کو عید الاضحی منائی جائے گی، چار روز قبل مسلمانوں کو مبارکباد دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ کشمیر میں عوام کو عید منانے میں کسی قسم کی کوئی مشکل نہیں آئے گی۔
دوسری طرف پاکستان نے ہندوستان کے ساتھ سفارتی روابط میں کمی لاتے ہوئے انڈین ہائی کمشنر کو خارج کردیا ، تجارتی تعلقات معطل کردیئے، نیز سمجھوتیہ اکسپریس کو بند کردیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے مسئلہ کشمیر پر بین الاقوامی برادری سے تائید و حمایت چاہی ہے۔ اس طرح پڑوسی ملک نے اپنے ارادے واضح کردیئے کہ وہ کشمیر کے بارے میں خاموش نہیں رہیں گے۔ یہ معاملہ میں اس وقت پیچیدگی پیدا ہوئی جب وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر اور اقصائے چن کو بھی ہندوستان اپنے جغرافیائی حدود میں شامل کرے گا۔ یہ خطہ میں کشیدگی پیدا کرنے والا بیان ہے۔