ایک ریٹائرڈ فوجی جنرل جس نے 1999 کی کرگل جنگ میں حصہ لیا تھا، وہ ہندوستانی شہری نہیں؛ موجودہ رکن اسمبلی اور ایک سابق ایم ایل اے بھی ہندوستانی شہری نہیں ہیں۔ یہ مضحکہ خیز انکشافات آسام میں ہفتہ کو نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس کی جاری کردہ قطعی فہرست سے اخذ کئے گئے ہیں۔ این آر سی کی گزشتہ سال جاری کردہ پہلی فہرست میں 40.7 لاکھ افراد کو جگہ نہیں ملی تھی اور اس کے ساتھ ہی آسام کے شہریوں بالخصوص مسلمانوں میں اضطراب، کرب اور غیریقینی کیفیت پیدا ہوگئی تھی، کیونکہ 40.7 لاکھ میں زیادہ تر مسلمان تھے۔ اب قطعی فہرست میں 19 لاکھ آسامی باشندوں کے نام غائب ہیں جن میں کئی وی آئی پیز بھی شامل ہیں ۔ اایک سال قبل 40 لاکھ سے زائد لوگ این آر سی حکام کی دانست میں آسام کے شہری کہلانے کے مستحق نہیں تھے لیکن اب یہ تعداد 50 فیصد سے زیادہ گھٹ گئی ہے اور ان کو بھی اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے 120 دن کا وقت دیا گیا ہے۔ ریاستی حکومت نے عوام کے غم و غصہ اور احتجاج کو دیکھتے ہوئے فہرست میں عدم شامل لوگوں کی پوری مدد کرنے کا اعلان بھی کردیا ہے۔ تاہم، قطعی فہرست میں بے شمار نقائص کے پیش نظر اسے ’تضادات کا مجموعہ‘ کہنا بے جا نہ ہوگا۔
مودی زیرقیادت مرکزی حکومت نے آسام میں چیف منسٹر سرب نند سونوال کی سرکردگی میں بی جے پی حکومت قائم ہوتے ہی شہریوں کی قومی فہرست یا NRC تیار کرنے کا شوشہ چھوڑتے ہوئے اس تجربے کے لیے سب سے بڑی شمال مشرقی ریاست کا انتخاب کیا۔ تب راجناتھ سنگھ مرکزی وزیر داخلہ تھے۔ حکومتوں نے بتایا کہ آسام میں غیرقانونی طور پر مقیم افراد کی بہتات کا اندیشہ پایا جاتا ہے، اس لئے این آر سی کو ضروری سمجھا گیا ہے جس سے آسام کے حقیقی شہریوں کی شناخت ہوگی اور دیگر کو مناسب کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جب گزشتہ سال مودی حکومت کی پہلی میعاد کے دوران این آر سی کی عبوری فہرست جاری ہوئی تو کافی ہنگامہ شروع ہوگیا کیونکہ 3 کروڑ سے کچھ زیادہ آبادی والی ریاست آسام میں زائد از 40 لاکھ افراد کے نام پہلی فہرست میں شامل نہیں تھے۔
شمال مشرقی ہند میں واقع ریاست آسام کے شمال میں بھوٹان اور اروناچل پردیش واقع ہیں؛ مشرق میں اروناچل پردیش، ناگالینڈ اور منی پور ہیں؛ جنوب میں میزورم اور میگھالیہ ہیں؛ اور مغرب میں بنگلہ دیش اور مغربی بنگال ہیں۔ پورے ملک میں شاید آسام واحد ریاست ہے جس کا محل وقوع اور جس کی سرحدیں کچھ ایسے ہیں کہ وہاں کئی دہوں سے قانونی و غیرقانونی تارکین وطن کی موجودگی کے ہمیشہ اندیشے ظاہر کئے جاتے رہے ہیں۔ تاہم، ریاستی اور مرکزی حکومتوں نے جس انداز میں این آر سی کا عمل شروع کیا، وہ کافی مشکوک نظر آیا۔ تاہم، ابتداءمیں صرف بی جے پی نے اس مساعی کی پرزور تائید و حمایت کی تھی۔ حتیٰ کہ صدر بی جے پی اور موجودہ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے یہاں تک کہا تھا کہ مستقبل میں این آر سی کو پورے ملک میں لاگو کیا جائے گا۔
اب این آر سی کی قطعی فہرست میں گزشتہ کے مقابل 21 لاکھ سے زیادہ افراد کا یکایک آسام کے باقاعدہ شہری قرار پانا، شاید بی جے پی کو پسند نہیں آیا۔ چنانچہ آسام بی جے پی نے ہفتہ کو سب سے پہلے اس فہرست پر ناراضگی ظاہر کی ہے، حالانکہ یہ فہرست ریاست و مرکز دونوں جگہ خود بی جے پی کی حکومتوں کی موجودگی میں تیار ہوئی ہے۔ عجیب بات ہے کہ جہاں بی جے پی کو یہ فہرست پر ناراضگی ہے، وہیں اپوزیشن کانگریس اور آسام کی دیگر نمایاں سیاسی پارٹیوں میں شامل آل انڈیا یونائیٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ نے بھی اس فہرست پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کام سپریم کورٹ کی نگرانی میں انجام پانے کے باوجود بے شمار خامیاں رہ گئی ہیں۔ اس کی سنگینی کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہفتہ کو جیسے ہی آسام این آر سی کی قطعی فہرست جاری ہوئی، ریاست کی ایک خاتون نے اپنا نام شامل نہ ہونے کی افواہ سن کر ہی خودکشی کرلی۔
آسام این آر سی میں ایک سال قبل شامل نہ ہونے والے 40.7 لاکھ افراد کی تعداد 19 لاکھ تک گھٹ جانے اور پھر انھیں بھی اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے 120 دن کی مہلت دیئے جانے سے لگتا ہے کہ حکومتوں نے تابڑتوڑ تنقیدوں اور احتجاجوں کے پیش نظر اپنے منصوبے میں کچھ تبدیلی لائی ہے۔ اگر یہ مودی۔ امیت شاہ جوڑی کا عملاً اعتراف غلطی ہے تو بہت اچھی بات ہے۔ لیکن اگر یہ کوئی بڑی منفی کارروائی کی تیاری کے لیے کچھ وقت لینے کی چال ہے تو ملک میں انتشار، بدامنی، اضطراب اور شہریوں میں بے چینی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اور یہ کیفیت قوم کی ترقی کے لیے نہایت مضر ہے۔ حکومت یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہئے کہ پہلے ہی معیشت کا برا حال ہے، ہم مزید بدحالی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔