بھارت کی مرکزی حکومت نے ایسا لگتا ہے کہ جموں و کشمیر کے معاملے کو ’ترپ کا پتا‘ بنا رکھا ہے، جسے وہ جب چاہیں اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے استعمال کرتے جارہے ہیں۔ ترپ کا پتا، پتوں کے کھیل کا حصہ ہے، اس کی تعداد اتنی نہیں ہوتی جتنی مرتبہ مودی حکومت کشمیر کے مسئلہ پر استفادہ کرتی جارہی ہے، بہ الفاظ دیگر کشمیر کو مرکز نے ایسی چال بنا رکھا ہے جسے وہ ملک کی 130 کروڑ سے زیادہ آبادی کے سلگتے اور سنگین مسائل سے توجہ ہٹانے اور اپنی حکومت کی ناکامیاں چھپانے کے لیے چلے جارہے ہیں۔ یہ بات نوٹ کیجئے کہ زائد از 130 کروڑ میں سے جموں و کشمیر کی آبادی بمشکل 1.50 کروڑ ہے۔
پانچ اگست سے گھر پر نظربند فاروق عبداللہ کی اتوار کو جموں و کشمیر کے سخت قانون کے تحت گرفتاری اور پیر کو باضابطہ اعلان کے اقدام سے یہی کچھ تو ظاہر ہورہا ہے کہ دستورِ ہند کے آرٹیکل 370 کی گنجائشوں کے تحت جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ منسوخ کئے جانے بعد دیڑھ ماہ ہورہا ہے لیکن لگاتار کوششوں کے باوجود نہ گورنر ستیہ پال ملک کی زیرنگرانی ریاستی انتظامیہ اور نہ ہی مرکزی حکومت وہاں ریاست میں معمول کے حالات بحال کرنے میں کامیاب ہوپائے ہیں۔ وادی کشمیر میں ہر طرف اسٹیٹ پولیس، نیم فوجی دستے اور فوج کے بٹالین دکھائی دیتے ہیں۔ اتنی تعداد میں تو مقامی لوگ بھی سڑکوں اور بازاروں میں نظر نہیں آرہے ہیں۔ والدین اپنے بچوں کو سلامتی کے خوف سے اسکول بھیجنے سے انکار کررہے ہیں۔ مقامی تاجرین کاروبار کے لیے دکانات نہیں کھول رہے ہیں۔ عملاً ڈر، خوف، ہراسانی اور غیرمعلنہ کرفیو کا ماحول پایا جاتا ہے۔
مرکز نے آرٹیکل 370 کی تنسیخ اور ریاست جموں و کشمیر کو کمتر درجہ پر لاتے ہوئے اسے دو مرکزی زیرانتظام علاقوں میں جموں و کشمیر اور لداخ میں بانٹ دینے سے قبل بالخصوص پوری کشمیری سیاسی قیادت کو گھروں پر نظربند کردیا تھا جو آج تک جاری ہے۔ اب 81 سالہ سرپرست نیشنل کانفرنس فاروق عبداللہ کی کشمیر کے لیے مخصوص پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتاری کی کیا ضرورت پیش آئی؟ دراصل ان کے دیرینہ دوست ٹاملناڈو کی چھوٹی مگر قابل ذکر پارٹی (ایم ڈی ایم کے) کے لیڈر وائیکو نے گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ سے رجوع ہوکر فاروق عبداللہ کی نظربندی سے رہائی اور انھیں ٹاملناڈو میں ایک ایونٹ میں شرکت کی اجازت چاہی تھی۔ عدالت عظمیٰ نے پیر کو وائیکو کی پٹیشن پر سماعت مقرر کی۔ مرکزی حکومت نے تاڑ لیا کہ فاضل عدالت اگر فاروق عبداللہ کی پیشی اور وائیکو کے حق میں فیصلہ سنادے تو کشمیر میں ان کا ’کھیل‘ بگڑ سکتا ہے، دیگر قائدین بالخصوص عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کی نظربندی بھی ختم کرنا پڑے گا۔ چنانچہ گورنر کے انتظامیہ نے فوری پی ایس اے کو لاگو کرتے ہوئے تین مرتبہ کے سابق چیف منسٹر کو ماخوذ کرتے ہوئے ان کی قیامگاہ ہی جیل ہونے کا اعلان کردیا۔ اس قانون کے تحت کسی بھی کشمیری کو ٹرائل کے بغیر چھ ماہ تک حراست میں رکھا جاسکتا ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ گورنر ملک نے اندرون 24 گھنٹے پیر کو قومی دارالحکومت پہنچ کر وزیراعظم مودی سے ملاقات کی اور انھیں وادی کشمیر کے حالات سے واقف کرایا۔ اسی دوران مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے بھی کشمیر کی صورتحال کا جائزہ لیا۔ مرکز اس طرح خود کو کشمیر میں ملوث رکھتے ہوئے آخر کیا ثابت کرنا چاہتا ہے؟ کیا بھارت جیسے وسیع و عریض ملک اور بھاری آبادی میں سب کچھ ٹھیک ہے کہ مودی حکومت کشمیر میں سر کھپا رہی ہے۔ اگر آرٹیکل 370 کے معاملے میں اس نے کشمیریوں اور کشمیری سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا ہوتا تو عین ممکن ہے حالات مختلف ہوتے۔ مگر جب نیت ہی صاف نہ ہو تو حکومت دھونس جماکر کام نکالنا چاہتی ہے۔ ابھی تک کی تبدیلیوں سے یہی لگتا ہے کہ ملک کی واحد مسلم ریاست اور وہاں کے اکثر باشندوں کو ناکردہ گناہوں کی سزا دی جارہی ہے جیسا کہ ایشیا کے بعض دیگر حصوں میں ہورہا ہے۔بھارت جیسے جمہوری و سکیولر ملک کی حکومت ایسے کام کرنے لگے تو وہ شہریوں پر ظلم کے مترادف ہے اور ظلم کا انجام آخرکار برا ہوتا ہے۔