! شرد پوار کا ماسٹر اسٹروک

Jabri Irfan


مہاراشٹرا کے دارالحکومت ممبئی کو فلم نگری کہتے ہیں۔ اسے ہالی ووڈ کی نہج پر بالی ووڈ بھی کہا جاتا ہے۔ ظاہر ہے اداکاری اور ڈرامہ بازی فلم نگری سے منسوب اہم چیزیں ہیں۔ تاہم، پچھلے چند ہفتوں میں ممبئی سے قومی دارالحکومت دہلی تک مہاراشٹرا سیاست کے تعلق سے جو ڈرامہ بازی دیکھنے میں آئی، میرے خیال میں اُس نے بالی ووڈ کی مشہور فلموں کو تک پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ 1980 کے دہے کی ایک فلم ’ ارجن ‘ میں آرہی ہے جس میں سیاسی داو پیچ کا زبردست مظاہرہ کیا گیا۔ حتیٰ کہ دو کٹر سیاسی حریف بھی اپنے مفادات کی خاطر ہاتھ ملا لیتے ہیں، جو خود سیاسی حلقوں کیلئے حیران کن تبدیلی ثابت ہوئی۔


جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب سینئر این سی پی لیڈر اور سربراہ پارٹی شرد پوار کے بھتیجہ اجیت پوار نہایت حیران کن سیاسی قلابازی کھاتے ہوئے بی جے پی کی طرف چلے گئے اور ریاستی گورنر بھگت سنگھ کوشیاری سے لے کر صدرجمہوریہ رامناتھ کووند فوری حرکت میں آگئے۔ گورنر نے مرکز کی مودی حکومت کو رپورٹ بھیجی کہ مہاراشٹرا سے صدر راج برخاست کیا جاسکتا ہے۔ مرکز نے صدر کووند سے اس اقدام کی سفارش کرنے میں کچھ دیر نہ کی اور اس سے زیادہ تیزی سے صدر راج کی برخاستگی کو صدر کی منظوری حاصل ہوگئی۔ بس پھر کیا تھا، راج بھون ممبئی میں راتوں رات انتظامات کئے گئے اور صبح 30 ۔ 7 بجے دیویندر فڈنویس کو دوبارہ بطور چیف منسٹر اور اجیت پوار کو بطور ڈپٹی سی ایم حلف دلایا گیا۔


شیوسینا۔ این سی پی۔ کانگریس کا اتحاد بجا طور پر ہفتہ کو ہی سپریم کورٹ سے ہنگامی سماعت کیلئے رجوع ہوا، مگر عدالت عظمیٰ نے پیر کو معاملے کی سماعت مقرر کی اور پھر اپنا فیصلہ منگل تک کیلئے محفوظ کردیا۔ ہفتہ، اتوار، پیر اور منگل کو صبح سپریم کورٹ کا فیصلہ سنانے تک ممبئی سے دہلی تک بلکہ ملک بھر کے سیاسی حلقوں میں چہ میگوئیاں ہوتی رہیں کہ اجیت پوار آخر اتنا بڑا جرا¿ت مندانہ اقدام شرد پوار کے آشیرواد کے بغیر کیسے کرسکتے ہیں؟ تاہم، نئے اتحاد میں شامل شیوسینا اور کانگریس نے اجیت پوار کی این سی پی سے بغاوت کیلئے شرد پوار کو کسی بھی طرح ذمہ دار قرار نہیں دیا۔ پیر کو دو رکنی مہاراشٹرا حکومت نے ریاست میں ہزاروں کروڑ روپئے کے 9 مشکوک معاملات بند کردیئے۔ انتخابی مہم میں خود چیف منسٹر فڈنویس نے یہی اسکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اجیت پوار جیل جائیں گے اور چکی پیسیں گے۔ 


پیر کو ہی شرد پوار نے صدر سینا ادھو ٹھاکرے اور کانگریس قیادت کو اعتماد میں لیتے ہوئے تینوں پارٹیوں کے تمام منتخب ارکان اسمبلی کو ممبئی کی شاندار ہوٹل میں جمع کرلیا۔ ان کے ساتھ چند چھوٹی حلیف پارٹیوں کے ایم ایل ایز اور شاید آزاد ارکان بھی آگئے۔ چنانچہ جملہ 162 کی عددی طاقت ہوگئی۔ شردپوار کے بشمول تینوں پارٹیوں کے قائدین نے میڈیا سے بات کی اور ہوٹل میں ایم ایل ایز کی عملاً ’ پریڈ ‘ کو سب کے سامنے پیش کیا کہ نئے اتحاد کو 288 رکنی اسمبلی میں سادہ اکثریت ( 145 ) سے کہیں زیادہ عددی طاقت حاصل ہے۔ 


اس طرح پیر کے روز دو بڑی تبدیلیاں ہوئیں۔ اجیت پوار کئی مقدمات سے آزاد ہوگئے، جو عین ممکن ہے بی جے پی کی حمایت کرتے ہوئے ڈپٹی چیف منسٹر کے عہدہ کا حلف لینے کا ان کا مقصد رہا ہوگا۔ ورنہ ادھو ٹھاکرے زیرقیادت مجوزہ حکومت میں این سی پی سے ان کو ہی ڈپٹی سی ایم بننا عملاً طے ہوگیا تھا۔ اسی طرح ایک ڈپٹی سی ایم کانگریس کا رہے گا۔ جب اجیت پوار نے چیف منسٹر فڈنویس کے ہاتھوں اپنا کام کرا لیا اور دوسری طرف شرد پوار نے اتحاد کی عملی طور پر قیادت کرتے ہوئے سب کو اکٹھا رکھا اور کم از کم سارے مہاراشٹرا اور دہلی کے مرکزی اقتدار کو کھلے طور پر بتا دیا کہ منگل کو جب سپریم کورٹ فڈنویس۔ اجیت حکومت کیلئے فلور ٹسٹ سے گزرنے کا حکم صادر کرے گی تو بی جے پی حکومت کو شکست یقینی ہے۔ اور سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ ایک روز بعد یعنی چہارشنبہ کو فڈنویس حکومت اسمبلی میں اکثریت ثابت کرے۔


جس طرح تین روز قبل صبح میں اجیت پوار نے ڈپٹی سی ایم کا حلف لیا تھا، اسی طرح منگل کی صبح اپنے نئے عہدہ سے استعفا دے دیا۔ یقینا فڈنویس اور مرکز میں بی جے پی کی اعلیٰ قیادت نریندر مودی اور امیت شاہ کو زبردست جھٹکہ لگا۔ وہ پندرہ روز قبل ٹھاکرے زیرقیادت حکومت کو روکنے کیلئے صدر راج نافذ کرچکے تھے۔ پھر اس کی برخاستگی تو نہایت غیرواجبی طریقے سے کی گئی۔ شاید اسی لئے اب وہ دوبارہ صدر راج لاگو کرنے کا جوکھم نہیں مول لے سکتے تھے۔ چنانچہ چیف منسٹر فڈنویس نے اجیت کے استعفے کے چند گھنٹوں بعد پریس کانفرنس منعقد کی اور عوام کو بتایا کہ اجیت کی این سی پی کو واپسی کے بعد بی جے پی کے ہاں ایوان اسمبلی میں اپنی حکومت کی اکثریت ثابت کرنے کیلئے درکار عددی طاقت نہیں ہے، اس لئے وہ بھی مستعفی ہورہے ہیں۔ اس مرتبہ سرعت سے کام کرتے ہوئے سینا۔ این سی پی۔ کانگریس اتحاد اپنے حامی ایم ایل ایز کی فہرست کے ساتھ گورنر کوشیاری سے رجوع ہوا اور درخواست کی کہ اس اتحاد کو تشکیل حکومت کی دعوت دی جائے۔ گورنر نے بلاشبہ مرکز سے مزید کوئی اشارہ نہیں پایا ہوگا، اس لئے نئی اسمبلی کا سیشن چہارشنبہ کو طلب کرلیا اور ساتھ ہی عبوری اسپیکر کا تقرر بھی کردیا، جو نومنتخب ارکان کو رکنیت اسمبلی کا حلف دلائے گا۔ 


جمعہ کی رات دیر گئے سے منگل کی شام تک بہت ہی تیز سیاسی گردش دیکھنے میں آئی۔ اجیت نے جب بغاوت کی اور بی جے پی کی طرف چلے گئے، تب شرد پوار نے ان کو لیجسلیچر پارٹی لیڈر کے عہدہ سے برطرف کیا، مگر اس قدر کٹر نظریاتی حریف کی حمایت کرنے کے باوجود اپنے بھتیجہ کو پارٹی سے برطرف نہیں کیا، جو عموماً دیکھنے میں آتا ہے۔ اگر جو مجھے خیال آرہا ہے وہ درست ہے تو پھر شرد پوار کی سیاسی مہارت کو ماننا پڑے گا۔ اجیت کی بغاوت پر وہ بالکلیہ حواس باختہ نہیں ہوئے اور میڈیا کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ 48 گھنٹوں کے اندر اجیت اور شاید دیگر سینئر و جونیئر این سی پی قائدین کے خلاف مقدمات بند ہوگئے۔ اور اس کے دوسرے ہی روز شرد پوار کے بھتیجہ نادم ہوکر اپنی پارٹی کی طرف لوٹ آئے۔ اگر کوئی لیڈر ایسی حرکت کرتا ہے تو اس سے پارٹی صفوں میں ناراضگی و خفگی پیدا ہوجاتی ہے مگر یہاں تو شیوسینا کے سینئر لیڈر سنجے راوت تک مسرور ہوگئے کہ اجیت پوار واپس آگئے اور اب ہمارے (اتحاد کے) ساتھ ہیں۔ اجیت نے فڈنویس حکومت سے اپنا کام نکالنے کیلئے خود ایسا کیا ہے تو ان کی سیاسی فراست و جرات کہوں گا اور اگر شرد پوار کی زبردست حکمت عملی کے تحت یہ سب کچھ ہوا ہے تو یہ بلامبالغہ این سی پی سربراہ کا ’ ماسٹر اسٹروک ‘ ہے۔ تاہم، دونوں صورتوں میں ہمیں صرف دو اشخاص ہی اصلیت بتا سکتے ہیں: اجیت پوار اور شرد پوار۔ اور دونوں سے یہ بات شاید کوئی نہیں پوچھ سکتا، یا کم از کم یہ راز منظرعام پر نہیں آسکتا ہے۔
٭٭٭

Find Out More:

Related Articles: