شہریت بل ۔ اسد اویسی کو مرکز کیخلاف تحریک کا زرین موقع
شہریت ( ترمیمی ) بل ( سی اے بی ) آخرکار 9 ڈسمبر 2019 کو مودی حکومت کی طرف سے وزیر داخلہ امیت شاہ نے لوک سبھا میں پیش کیا اور اسی روز تقریباً 12 گھنٹے کے مباحث کے بعد رائے دہی کے ذریعے ایوان زیریں نے اسے منظور کرلیا۔ بل کے حق میں 311 اور اس کی مخالفت میں 80 ووٹ ڈالے گئے۔ اب یہ بل ایوان بالا راجیہ سبھا سے رجوع کیا جائے گا اور وہاں بھی بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے حکومت کو کامیابی ملنا یقینی ہے کیونکہ جمہوریت محض نمبر کا کھیل ہے اور نمبر ( عددی طاقت ) ہندوستان کیلئے افسوس کی بات ہے کہ موجودہ طور پر بی جے پی کے حق میں ہے۔ دونوں ایوان یعنی پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد اس بل کو دستخط کے ذریعے قانون بنانے میں صدرجمہوریہ رامناتھ کووند کچھ تاخیر کریں گے ، ایسا ہرگز ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
مجھے شہریت ( ترمیمی ) بل کے خلاف سب سے اچھا ردعمل سی پی آئی لیڈر کنہیا کمار کا معلوم ہوا۔ انھوں نے کہا کہ اب عوام کو مودی حکومت کے خلاف ’ تحریک عدم تعاون ‘ اور ’ سیول نافرمانی ‘ ( اجتماعی نافرمانی) شروع کردینا چاہئے۔ کنہیا کا ردعمل عمومی ہے لیکن یہ کام خصوصیت سے ہندوستانی مسلمانوں کو کرنا چاہئے۔ موجودہ طور پر ہندوستانی سیاسی قیادت میں کئی چہرے برسراقتدار بی جے پی سے ظاہری یا خفیہ طور پر تعاون کیلئے مشکوک ہیں۔ مگر میں ماضی میں جینے کا قائل نہیں کیونکہ انسان کو ہر موقع پر تقابل جائزہ لیتے رہنا پڑتا ہے۔ ہم کو دیکھنا ہے کہ کسی کی ماضی میں سیاسی و انتخابی حکمت عملی غلط ہوئی، اس پر توجہ مرکوز کرنا اہم ہے یا موجودہ طور پر توجہ اس پر بات پر ہونا چاہئے کہ کہیں زیادہ تشویشناک اور خطرناک مسئلہ نئے قانون شہریت کی شکل میں ہندوستانی مسلمانوں پر مسلط کیا جارہا ہے۔ اس لئے بعض معاملوں میں شکوک و شبہات کے باوجود کسی نہ کسی کو تو مجوزہ نئے قانون شہریت اور مودی حکومت کی ملک کی سالمیت کو تہس نہس کرنے کی طرف بڑھتے قدم پر روک لگانے یا کم از کم پرزور مزاحمت کرنے آگے آنا تو پڑے گا۔
میں سمجھتا ہوں، صدر مجلس اور حیدرآباد ایم پی اسد الدین اویسی کیلئے ہندوستانی سیاست اور مودی حکومت کی حرکتوں نے مسلمانوں کی طرف سے یادگار سیاسی مزاحمت چھیڑنے کا زرین موقع فراہم کیا ہے۔ تحریک عدم تعاون اور ( حکومت کے خلاف ) اجتماعی نافرمانی کا خیال کنہیا کمار تجویز کرو یا کوئی اور، مسلمانوں کو تجویز پر توجہ دینا چاہئے، تجویز کون پیش کررہا ہے، اس پر نہیں۔ مجلس نے حیدرآباد میں پورے اسمبلی حلقوں یا اضلاع میں کبھی قابل ذکر نشستوں پر الیکشن نہیں لڑے لیکن وہ بیرون آندھرا پردیش اور بیرون تلنگانہ انتخابی پیش رفت کرتے ہوئے مہاراشٹرا، کرناٹک، اترپردیش، بہار میں انتخابی مقابلہ کرچکے ہیں اور اب جھارکھنڈ میں بھی ان کی انتخابی مسابقت جاری ہے۔
مجلس اور بالخصوص پارٹی کی قیادت اسد اویسی کو بلاشبہ قومی سطح پر معقول شناخت مل چکی ہے۔ اب تک جن ریاستوںمیں مجلس نے دو، چار نہیں بلکہ درجنوں امیدواروں کو انتخابی میدان میں اتارا ہے، وہاں الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مجلس کی انتخابی مسابقت میں موجودگی نے بی جے پی کو بالواسطہ فائدہ پہنچایا۔ اس کے باوجود میرا ماننا ہے کہ چند نشستوں کی وجہ سے بھلے ہی بی جے پی کو بعض جگہ ریاستی اقتدار حاصل ہوگیا لیکن وہ کوئی دائمی تبدیلی نہیں ہوئی۔ تاہم، اب پانی سر سے اونچا ہورہا ہے۔ شہریت ( ترمیمی ) بل کو نیا قانون شہریت بننے میں محض ضابطہ کی تکمیل باقی رہ گئی ہے۔ مسلمانوں اور خاص کر اسد اویسی کو اب مزید تن آسانی سے کام نہیں لینا چاہئے۔ اسد اویسی نے لوک سبھا میں حکومت کی مخالفت کرتے ہوئے بطور احتجاج شہریت ( ترمیمی ) بل کی کاپی کو پھاڑ ڈالا۔ یہ ٹھیک ہے، علامتی اقدام ہے۔ ایسا تو کرنا ہی چاہئے۔ لیکن صرف اسی قسم کے احتجاج پر اکتفا کرکے بیٹھ جائیں تو تاریخ اسد اویسی اور دیگر نامور مسلم قائدین کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔
سابق مرکزی وزیر پی چدمبرم جب مودی حکومت کے خلاف مسلسل بولنے اور لکھنے لگے تو انھیں زائد از 100 دن جیل کی ہوا کھلائی گئی۔ اسد اویسی مجوزہ نئے قانون شہریت اور این آر سی پر حکومت کی مخالفت کریں تو عین ممکن ہے ان کو بھی مقدمات میں پھانسا جائے گا۔ مگر صدر مجلس کو یاد رکھنا چاہئے کہ سیاسی دنیا اور انتخابی سیاست میں عوامی کاز کیلئے جیل جانا خراب نہیں بلکہ اچھی بات ہے۔ اس وقت ان کو اپنی برادری اور امت مسلمہ کی بنیادی شناخت کو خطرے میں پڑنے سے بچانے کیلئے جتن کرنا ہے۔ اس کیلئے وہ فوراً سے پیشتر دہلی سے اعلان کردیں کہ وہ مسلمانوں سے تحریک عدم تعاون اور اجتماعی نافرمانی شروع کرنے کی اپیل کرتے ہیں اور اس کی قیادت وہ خود کریں گے۔ اس نوعیت کی احتجاجی تحریک کے خدوخال کیا ہوں گے، اسے طے کرنا تحریک کی قیادت کا کام ہوگا کہ حکومت سے عدم تعاون کس طرح کیا جائے؟ اجتماعی نافرمانی کیسے ہو؟
لوک سبھا میں منظورہ بل کو مختصراً یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ اس کے ذریعے مرکزی حکومت نے بعض بیرونی ملکوں جیسے پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان سے آئے ہندو، سکھ، جین، پارسی و دیگر طبقات کے پناہ گزینوں یا تارکین وطن کو باقاعدہ ہندوستانی شہریت عطا کردینے کی تجویز رکھی جبکہ اس تجویز سے مسلمانوں کو خارج رکھا گیا ہے۔ یعنی مسلمان اگر پناہ گزین جیسے روہنگیا اور تارکین وطن پائے جائیں تو انھیں غیرہندوستانی قرار دیتے ہوئے حراستی مراکز کو بھیج دیا جائے گا۔
اس بل کا دوسرا حصہ نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس ( این آر سی ) ہے جس پر ریاست آسام میں عمل کیا جاچکا ہے۔ شہریت ( ترمیمی ) بل جیسے ہی قانون بن جائے، مودی حکومت ملک بھر میں این آر سی پر عمل کا فیصلہ کرسکتی ہے۔ چنانچہ وہی کچھ ہوگا جو آسام میں ہوا۔ لگ بھگ 3.5 کروڑ کی آبادی والے آسام میں این آر سی کی قطعی فہرست میں 19 لاکھ افراد اپنی ہندوستانی شہریت دستاویزات کے ذریعے ثابت نہیں کرپائے۔ ان میں تقریباً 15 لاکھ ہندو اور بقیہ مسلمان و دیگر ہیں۔ چنانچہ مجوزہ قانون شہریت کے مطابق ہندووں کو تو باضابطہ ہندوستانی شہریت مل جائے گی جبکہ مسلمانوں و دیگر کو حراستی مراکز بھیجا جارہا ہے۔
آسام میں جو لوگ اپنی ہندوستانی شہریت دستاویزات کے ذریعے ثابت نہ کرسکے، ان میں مسلمان صرف 20 فیصد یا کچھ زائد ہیں۔ ہندوستان میں مجموعی طور پر اب بھی تقریباً نصف آبادی ناخواندہ ہے۔ اس لئے ملک کے طول و عرض میں 20 فیصد یا اس سے کچھ زائد مسلمانوں ( لگ بھگ 4 تا 5 کروڑ ) کا دستاویزات کے ذریعے اپنی ہندوستانی شہریت ثابت کرنے سے قاصر ہونا غیرممکن نہیں ہے۔ یعنی تقریباً 20 تا 25 کروڑ کی مسلم آبادی میں سے پانچویں حصہ کو مودی۔شاہ حکومت اور ان کی مادر تنظیم آر ایس ایس نے جیل نما حراستی مراکز میں ڈال کر ووٹنگ کے حقوق سے محروم کرنے کا ناپاک منصوبہ بنا رکھا ہے۔ صرف حق رائے دہی نہیں بلکہ ایک مسلمہ شہری کو متعدد دیگر حقوق حاصل رہتے ہیں، ان سب سے بڑی تعداد میں مسلمانوں کو محروم کرنے کی سازش ہے۔
جو مسلمان دستاویزات کے ذریعے اپنی ہندوستانی شہریت ثابت کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے، ان کے خلاف قانون شہریت کے بعد یکساں سیول کوڈ کا ’جمہوری ہتھیار‘ استعمال کیا جائے گا جو مسلمانوں کے مذہبی حقوق ، ان کی مذہبی انفرادیت، ان کی علحدہ شناخت پر کاری ضرب ہوگی۔ اس کے بعد مسلمانوں کا کیا حال ہوگا، وہ پرآشوب حالات کا کیسے سامنا کریں گے، ملک بھر میں کیسی کشیدگی پیدا ہوگی، اس کے نتیجے میں سماج کا تانا بانا کس طرح ٹوٹ جائے گا اور اس کا شیرازہ کیسے بکھر جائے گا ، یہ سب ہندوستان کیلئے بلاشبہ کسی تباہی سے کم نہ ہوگا۔
٭٭٭