مئی 2014 میں مودی حکومت تشکیل پانے کے بعد سے بی جے پی کو ایسا کرارا جھٹکا کبھی نہیں لگا جو اروند کجریوال زیرقیادت عام آدمی پارٹی نے اسمبلی الیکشن 2020 میں اسے پہنچایا ہے۔ مرکزی حکومت اور بی جے پی میں نمبر دو طاقت سمجھے جانے والے وزیر داخلہ امیت شاہ نے وہی ہندو۔ مسلم موضوع کا سہارا لیتے ہوئے انتخابی جلسوں میں ووٹروں سے اپیل کی تھی کہ ای وی ایم کا بٹن اتنا زور سے دبائیں کہ کرنٹ (بہ معنی جھٹکا) شاہین باغ دہلی والوں کو محسوس ہو۔
شاہین باغ میں شہریت ترمیمی بل (سی اے اے) کے خلاف 15 ڈسمبر سے احتجاج ہورہا ہے۔ حالیہ عرصے میں بالخصوص مئی 2019 میں مودی حکومت کو دوسری میعاد کیلئے جیت کے بعد سے بی جے پی کے عام قائدین سے لے کر وزیراعظم کو تک احمق لیڈر کہا جانے لگا ہے۔ یہ یونہی نہیں ہے۔ شاہین باغ کے احتجاج کا دہلی کے اسمبلی انتخابات سے کیا لینا دینا؟ سی اے اے خالص مرکزی حکومت کا معاملہ ہے۔ دہلی کی ریاستی حکومت کے پاس تو پولیس کا ڈپارٹمنٹ تک نہیں، اسے بھلا شہریت کے قومی معاملے سے کیا واسطہ؟ دراصل بی جے پی والوں کے پاس اور کچھ موضوع ہے ہی نہیں جس پر وہ الیکشن لڑتے۔ وکاس، وکاس کا جھانسہ دیتے ہوئے وہ ایک مرتبہ 2014 میں مرکزی اقتدار حاصل کرچکے۔ دوسری بار 2019 میں قومی سلامتی ، پاکستان اور ہندو۔ مسلم کے موضوعات کو اس قدر اچھالا کہ کمزور اپوزیشن کے درمیان عوام دوبارہ غلطی کربیٹھے۔
منگل 11 فروری کے نتائج نے وزیراعظم ، وزیر داخلہ سے لے کر صدر بی جے پی، دہلی بی جے پی اور پوری زعفرانی سیاسی ٹولی کو زبردست جھٹکا لگایا ہے۔ لوک سبھا الیکشن کو ابھی ایک سال نہیں گزرا، جب کجریوال کی ریاستی حکومت کے درمیان بی جے پی نے دہلی کے تمام 7 پارلیمانی نشستیں جیتے۔ شاید اسی کے پیش نظر انھیں بہت خوش فہمی ہوگئی تھی کہ اسمبلی الیکشن بھی جیت جائیں گے۔ تاہم، جیسا کہ میں نے کہا ہے، لوک سبھا الیکشن بالکلیہ مختلف ماحول میں منعقد ہوا، اور اب عوام کیلئے دہلی میں ریاستی اقتدار کو منتخب کرنے کا معاملہ سامنے آیا۔ کجریوال حکومت نے واقعی دہلی میں عوام کی فلاح و بہبود کیلئے بہت کام کئے ہیں۔ چیف منسٹر کجریوال نے اسکولس، دواخانوں، الیکٹریسٹی، پانی، سڑکوں، ترقی، ماحولیات جیسے شعبوں میں سنجیدگی سے کام کئے، جس کا انعام انھیں ملا ہے۔
کانگریس جیسی نیشنل پارٹی جس نے کجریوال حکومت کی پہلی بار تشکیل سے ٹھیک پہلے لگاتار 15 سال حکومت کی، متواتر دوسری بار دہلی اسمبلی میں کھاتہ کھولنے میں ناکام ہوئی ہے۔ یہ سونیا گاندھی زیرقیادت پارٹی کیلئے بہت پشیمانی کا معاملہ ہے۔ کم از کم مقبول عام لیڈر الکا لامبا کے ذریعے کانگریس کو کھاتہ کھولنے کی امید تھی مگر عام آدمی پارٹی قیادت سے اختلافات کی بناءکانگریس میں شامل ہونے والی 44 سالہ الکا کو ان کی سابقہ پارٹی کے امیدوار پرہلاد سنگھ ساہنی نے کراری شکست دے دی۔ تاہم، یہ بھی سچ ہے کہ کانگریس کو یہ خوش فہمی ہرگز نہیں تھی کہ 0 سیٹ کے ساتھ وہ کجریوال کی کامیاب حکمرانی کے خلاف کوئی خاص مظاہرہ کرپائیں گے۔ اس لئے کانگریس نے بی جے پی کا راستہ روکنے کی حکمت عملی اپنائی اور یہ الیکشن ظاہری طور پر لڑا، جس کا کجریوال کو کم از کم دل میں اعتراف ہونا چاہئے۔
کیا دہلی میں کراری شکست کے بعد بی جے پی اور اس کی مغرور قیادت میں مثبت تبدیلی آئے گی؟ مجھے نہیں لگتا کہ وہ سدھرنے والے ہیں۔ اگلی آزمائش اکٹوبر کے آس پاس بہار اسمبلی الیکشن ہے جو 70 رکنی دہلی کے مقابل بہت بڑی ریاست ہے جہاں شکست کی بی جے پی اور مودی حکومت ہرگز متحمل نہیں ہوسکتے۔ بہرحال چیف منسٹر کجریوال نے ملک بھر اپوزیشن کو بڑا حوصلہ دیا ہے جو آنے والے دنوں میں ممکنہ کشیدہ حالات میں بہت کام آئے گا۔ سی اے اے کیخلاف کئی ریاستوں نے اسمبلی میں قرارداد منظور کی ہے۔ کجریوال کو کم از کم این پی آر (نیشنل پاپولیشن رجسٹر) کے یکم اپریل سے عمل آوری کے خلاف کھل کر مخالفت کرنا چاہئے۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص ہیں۔ انھیں بخوبی علم ہونا چاہئے کہ سی اے اے، این پی آر اور مجوزہ این آر سی دیش کے مفاد میں ہرگز نہیں ہیں۔
٭٭٭
Find Out More: