بچپن میں سنتے رہے کہ ”بلی نے راستہ کاٹ دیا“، اب جس کام یا مقصد سے ہم جارہے تھے وہ ٹھیک نہیں ہوگا، اس لئے واپس لوٹ جانا بہتر ہے۔ جہاں تک میرا معاملہ ہے، مجھے کبھی ایسی باتوں پر یقین نہیں رہا، چنانچہ ان پر میری توجہ بھی نہیں پڑتی۔ وہم پرستی یا توہم پرستی پر میرے ایقان ہونے یا نہ ہونے سے یہ حقیقت نہیں بدل جاتی کہ اوپر والے نے سماج میں بلکہ دنیا میں ہر قسم کے لوگ پیدا کئے ہیں۔ اپنی سوچ و فکر، اپنے ایقان و یقین، اپنے علم و عمل کا ہر فرد خود ذمہ دار ہے، چاہے وہ کسی بھی عقیدہ ، مذہب سے تعلق رکھے یا دہریہ کیوں نہ ہو۔ وہم پرستی اگر کسی فردِ واحد تک محدود رہے، اس سے فائدہ ہو کہ نقصان اسی تک یا زیادہ سے زیادہ اس کی فیملی تک رہے تو شاید کسی دیگر فرد کو اعتراض نہیں ہوگا یا پھر ہوگا بھی تو اس کی نوعیت محدود رہے گی۔ اگر اعلیٰ سرکاری منصب پر فائز کوئی شخصیت جس پر کروڑوں افراد کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، وہ وہم کا شکار رہنے لگے اور اس کے زیراثر غیرمنطقی اور منفی کام کرنے لگے تو اس کا نقصان محدود نہیں ہوسکتا، یہ واقعی تشویش کی بات ہے۔
ہمارے (میں تلنگانہ کا شہری ہوں) وزیر اعلیٰ کلواکنٹلا چندر شیکھر راو توہم پرستی کے معاملے میں افسوس کہ خراب ریکارڈ رکھتے ہیں۔ گزشتہ روز ہی کی بات ہے جب مرکزی حکومت نے ٹاملناڈو کی ڈاکٹر ٹی سونداراجن کو ای ایس ایل نرسمہن کی جگہ تلنگانہ کی نئی گورنر نامزد کیا، چیف منسٹر کے سی آر سبکدوش ہونے والے گورنر سے ملاقات کے لیے راج بھون پہنچ گئے۔ دونوں نے ریاست کے مختلف مسائل پر تبادلہ خیال کیا، بہت اچھا کیا۔ لیکن بتایا گیا کہ چیف منسٹر کے سی آر نے گورنر سے اس مسئلہ پر اپنے شکوک و شبہات کا ازالہ کرنے کی کوشش کی کہ آیا نئی گورنر سونداراجن شہر حیدرآباد کی قدیم نشانی اِرم منزل کی جگہ نئے تلنگانہ سکریٹریٹ کی تعمیر اور موجودہ سکریٹریٹ کی عمارتوں کو منہدم کرنے سے متعلق ٹی آر ایس (تلنگانہ راشٹرا سمیتی) حکومت کی تجویز کی راہ میں حائل تو نہیں ہوں گی؟
بتایا جاتا ہے کہ کے سی آر کو کسی نے ’تاکید‘ کردی کہ ان کے لیے پانی کے ذخیرہ کے قریب رہنا یا وہاں واقع دفتر میں کام کرنا ’ٹھیک نہیں‘ ہوگا۔ اب یہ سیاسی کریئر کے اعتبار سے ٹھیک نہیں ہوگا یا صحت و زندگی کے لحاظ سے خراب ہوگا، اس سے کم ہی لوگ واقف ہوں گے (کم از کم میں تو واقف نہیں ہوں)۔ شاید اسی لئے کے سی آر نے اپنے اقتدار کے چھ سال میں کبھی سکریٹریٹ سے سرکاری کام کاج نہیں کیا ہے۔ میرے لیے اور اس طرح کی توہم (تَ۔وَہ۔ ہُم) پرستی (غیرمنطقی ایقان جو نادانی اور خوف کے سبب پیدا ہو) پر یقین نہ کرنے والے تلنگانہ کے دیگر لاکھوں یا کروڑوں شہریوں کے لیے یہ تشویش کی بات ہے کہ ہمارے وزیر اعلیٰ اپنے وہم و اعتقاد کی خاطر سرکاری خزانہ کو بھینٹ چڑھا رہے ہیں۔ ہم سبھی جانتے ہیں کہ آج ملک کی معیشت کا کیا حال ہے؟ میرا ماننا ہے کہ لگ بھگ وہی حال متعدد ریاستوں کا بھی ہے اور میرے خیال میں تلنگانہ ایسی ریاستوں میں شامل ہے۔
اِن دنوں ہمارا دارالحکومت شہر موسمی وبائی امراض کی لپیٹ میں ہے۔ اکثر سرکاری دواخانوں کی حالت خراب ہے؛ ادویات سے لے کر عملہ اور انفراسٹرکچر تک بہتر بنانے کے لیے معقول سرکاری فنڈز مشغول کرنے کی ضرورت ہے۔ حیدرآباد میں بالخصوص پرانا شہر (میری سکونت یہیں پر ہے) میں بلدی مسائل، سڑکوں کے مسائل ہمیشہ سے رہے ہیں اور ٹی آر ایس حکومت کے ان چھ برسوں میں کہیں کہیں چند تبدیلیوں کے سوا مجموعی طور پر پرانا شہر کا وہی حال ہے جو برسہابرس سے رہا ہے۔ روزگار کا مسئلہ عمومی ہے، یعنی ساری ریاست کا مسئلہ ہے۔ متعدد محکمہ جات میں لوگ کنٹراکٹ پر کام کررہے ہیں، ان کا مستقبل غیریقینی کیفیت کا شکار ہے، وہ لوگ کام تو اتنا ہی کررہے ہیں جتنا متعلقہ محکمہ کے مستقل ملازمین کرتے ہیں، لیکن دونوں کی تنخواہ اجرت میں کوئی توازن ہی نہیں؛ یہ صریح ناانصافی نہیں تو اور کیا ہے؟ ٹی آر ایس حکومت نے گزشتہ اسمبلی انتخابات سے کچھ عرصہ قبل یکایک دیہات میں زمینات رکھنے والوں کو رقومات بانٹنے شروع کردیئے، کیا یہ ووٹوں کی بالواسطہ خریداری نہیں ہوئی؟ حکومت نے ظاہر طور پر جواز پیش کیا کہ وہ غریب کسانوں کی مدد کررہے ہیں۔ کیا حکومت کو نہیں معلوم کہ سرکاری خزانہ سے کروڑہا روپئے کتنے ہی پیٹ بھرے لوگوں کی جیبوں میں چلے گئے؟ مختصر یہ کہ کے سی آر کی وہم پرستی سے لے کر اقتدار سے چمٹے رہنے کی غلط کوشش نے بے شمار عام لوگوں کا حق مارا ہے۔ اقتدار نہ کبھی کسی کے پاس ہمیشہ رہا اور نہ ہی کے سی آر کا رہنے والا ہے۔ اگر وہ ’شیطانی وہم‘ اور ’ذاتی مفادات‘ کو ترک کرکے اب بھی عقل و دانش کو ترجیح دیتے ہوئے عوامی فائدے کے کام کرتے ہیں تو تاریخ انھیں اچھے الفاظ میں یاد رکھے گی، ورنہ وقت نے تو ہر کسی کو سبق سکھا کر ہی چھوڑا ہے۔