راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت کی جمعرات 12 ستمبر کو حیدرآباد کے مرکزی گنیش جلوس میں شرکت طے ہوچکی ہے۔ وہ معظم جاہی مارکیٹ پر گنیش بھکتوں کو سہ پہر 3.30 بجے اور 4.30 بجے کے درمیان مخاطب کریں گے۔ علاوہ ازیں وہ جلوس کے مختلف مقامات پر بھی خطاب کریں گے۔ بیرون حیدرآباد سے کسی نامور ہندو لیڈر کی گنیش وسرجن جلوس میں شرکت کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ماضی میں وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) لیڈر پراوین توگاڑیہ کی گنیش جلوس میں شرکت بحث کا موضوع بنتی رہی ہے۔ سنگھ پریوار اور اُسے ملحق تنظیموں کے دیگر کئی قائدین بھی حیدرآباد کو آکر بالخصوص ایم جے مارکیٹ میں خصوصی طور پر لگائے گئے بڑے پنڈال سے تقریریں کرتے رہے ہیں۔
حیدرآباد گنگا جمنی تہذیب کا گہوارہ رہا ہے۔ 1948 میں پولیس ایکشن سے قبل حیدرآباد اسٹیٹ میں اکثریتی برادری پر اقلیتی حکمرانوں کی کیسی عمدہ حکمرانی رہی، فرقہ وارانہ ماحول کیسا رہا، عوام کی مجموعی حالت کس نوعیت کی رہی، اس کی تفصیل میں فی الحال جانا نہیں چاہتا ہوں۔ حیدرآباد اسٹیٹ کے انڈیا یونین میں انضمام کے بعد نمایاں فرق یہ ہوا کہ حکمرانی اکثریتی اشخاص کے ہاتھوں میں آگئی۔ اس کے بعد بھی فرقہ وارانہ ماحول عمومی طور پر برقرار رہا۔ حیدرآباد میں پہلا بڑا فرقہ وارانہ فساد 1978 میں پیش آیا جب ایم چنا ریڈی چیف منسٹر تھے۔ اس کی شروعات رمیضہ بی ریپ کیس سے ہوئی اور اس کے خلاف احتجاجی تحریک بڑے فرقہ وارانہ فساد میں تبدیل ہوگئی۔ ہندو اور مسلمان مساوی تعداد میں مارے گئے۔ نیز چناریڈی نے شاید اپنے سیاسی فائدے کی خاطر گنیش جلوس سے خطاب کی روایت شروع کی۔ مسلمانوں کو یہ کچھ بھلا نہ لگا۔ تب سے فرقہ وارانہ فسادات ہر سال کا معمول بن گئے، یہاں تک کہ 1983 میں این ٹی راما راو زیرقیادت تلگودیشم پارٹی برسراقتدار آگئی۔ فسادات میں اولڈ سٹی زیادہ متاثر ہوتا تھا اور اکثر کشیدگیاں اتنی بڑھ جاتیں کہ پرانے شہر میں کئی بار کرفیو لاگو کیا گیا۔ ٹی ڈی پی حکمرانی میں فرقہ وارانہ تشدد تقابلی اعتبار سے 1990 تک ماند پڑگیا تھا۔ پھر 1992 میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد سے ملک کا فرقہ وارانہ ماحول ہی بدل گیا۔ اور اب گزشتہ زائد از پانچ سال سے مرکز اور کئی ریاستوں کے طرز حکمرانی نے جلتے پر تیل چھڑکنے کا کام کیا ہے۔
یہ پس منظر بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ماضی قریب میں ملک میں کئی جگہ فرقہ وارانہ ماحول بگڑنے کے باوجود حیدرآباد اور بالخصوص پرانا شہر ’کمیونل رایٹس‘ سے بچا ہوا ہے۔ موجودہ تلنگانہ راشٹرا سمیتی (ٹی آر ایس) حکومت ہو یا اس سے قبل کی کانگریس اور تلگودیشم پارٹی حکومتیں، سب ہی نے ریاستی دارالحکومت میں کوئی بڑا نقص امن نہیں ہونے دیا ہے۔ چنانچہ ہم حیدرآبادی یہی چاہتے ہیں کہ اکثریتی برادری اپنے فیسٹیول روایتی جوش و خروش سے منائے، لیکن اسے تخریبی سرگرمیوں کا موقع نہ بنائیں۔
آر ایس ایس سربراہ سے امید ہے کہ وہ اپنی تقریر میں بلاوجہ اشتعال انگیزی سے گریز کریں گے اور جیسا کہ آر ایس ایس خود کو سماجی تنظیم بناتا ہے، وہ سلگتے سماجی موضوعات پر ہی بات کریں تو سماج کیلئے بہتر رہے گا۔ ماضی میں دائیں بازو کے کٹر یا شدت پسند قائدین نے گنیش جلوس کے موقع اشتعال انگیز تقریریں کی ہیں، جو بھلے ہی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے میں کامیاب نہیں ہوئیں۔ تاہم، موجودہ طور پر ملک کے زیادہ تر حصہ میں برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) جگ ظاہر ہے کہ تلنگانہ میں اپنے قدم جمانے کافی زور لگا رہی ہے۔ اس لئے چیف منسٹر چندرشیکھر راو کو اور ان کی حکومت کو چوکس رہنا چاہئے کہ ایک تہوار کے نام پر کوئی تخریبی مقاصد کی تکمیل کرنے کی کوششیں نہ ہونے پائیں۔