بھارت میں ممبئی کے بعد حیدرآباد میں گنیش وسرجن کے جلوس کا نمبر ہے جو بھیڑ بھاڑ، جوش و خروش اور جسامت کے اعتبار سے جڑواں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد کا نمایاں سالانہ ایونٹ ہوتا ہے۔ متحدہ آندھرا پردیش میں وقفے وقفے سے گنیش جلوس کے موقع پر گڑبڑ اور فساد کے واقعات پیش آیا کرتے تھے لیکن اب وہ قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ بہت اچھی بات ہے کہ نئی ریاست تلنگانہ میں گنیش جلوس کا چھٹا سال ہے اور اس بار بھی پرامن انعقاد ہوا ہے جس کے لیے بجاطور پر پولیس اڈمنسٹریشن، انٹلیجنس سرویس، حکومتی نظم و نسق اور گنیش اتسو سمیتی تعریف کے مستحق ہیں۔
اس مرتبہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کو سمیتی نے خصوصی مہمان مقرر کے طور پر مدعو کیا۔ وہ حیدرآباد آئے اور تقاریر کئے ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ انھوں نے دارالحکومت شہر کی گنگا جمنی تہذیب اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے والی کوئی اشتعال انگیزبات نہیں کہی۔ سارے ملک میں گزشتہ پانچ سال سے آر ایس ایس اور اس کی سیاسی تنظیم بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے بشمول لگ بھگ تمام ملحقہ تنظیموں کا اثرورسوخ بڑھا ہے، نیز ہر ایونٹ کا سنگھ پریوار نے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ جنرل الیکشن 2019 کے تحت تلنگانہ میں 17 کے منجملہ بی جے پی کے ایک ، دو نہیں بلکہ چار ارکان لوک سبھا منتخب ہونے کے بعد سے تلنگانہ راشٹرا سمیتی (ٹی آر ایس) زیراقتدار جنوبی ریاست میں قومی پارٹی کے حوصلے کافی بلند ہیں۔ میرے خیال میں شاید اس پس منظر میں بھاگوت جی کو کوئی نیا تنازع پیدا کرنے اور عوام کو مشتعل کرنے کی حاجت محسوس نہ ہوئی۔
بہرحال چیف منسٹر کے چندرشیکھر راو کے لیے اطمینان کی بات ہے کہ ان کی حکومت میں ایک اور گنیش وسرجن جلوس کا پرامن انعقاد عمل میں آیا ہے۔ کے سی آر حکومت کو اس طرح کے مزید اور کئی دیگر موقعوں پر استقلال سے کارکردگی پیش کرتے ہوئے عوام کو اعتماد میں رکھنا ہے کہ ٹی آر ایس حکمرانی نازک موقعوں پر اچھا پرفارمنس پیش کرسکتی ہے۔ مستقبل قریب میں ملک کو بعض اہم امور میں پارلیمانی اور دستوری اعتبار سے نازک موڑ کا سامنا ہوسکتا ہے۔ ایسی صورتحال مختلف قومی و علاقائی پارٹیوں کے لیے آزمائش ہوگی۔ تب ٹی آر ایس کیا موقف اختیار کرتی ہے، دیکھنا ہوگا۔