تلنگانہ کو خاتون وزیر ملنے میں تاخیر ہوئی لیکن جب وقت آیا تو ایک نہیں دو خواتین ....اندرا سبیتا ریڈی اور ستیہ وتی راٹھوڑ.... کے سی آر کابینہ میں شامل ہوگئیں۔ تلنگانہ کابینہ میں یہ توسیع اتوار 8 ستمبر کی شام میں ہوئی۔ اور اسی روز صبح میں تلنگانہ کی پہلی خاتون نامزد گورنر ٹاملیسائی سوندرا راجن کو ای ایس ایل نرسمہن کی جانشین کی حیثیت سے چیف جسٹس تلنگانہ ہائی کورٹ جسٹس راگھویندر سنگھ چوہان نے عہدہ کا حلف دلایا۔ اور پھر نئی گورنر نے شام میں ریاستی کابینہ کی توسیع کے تحت چھ وزراءبشمول ہریش راو اور کے ٹی راما راو کو عہدہ اور رازداری کا حلف دلایا۔ اس طرح خواتین کے لیے تلنگانہ میں 8 ستمبر 2019 یادگار یوم ثابت ہوا۔ سبیتا ریڈی ہوں یا ستیہ وتی راٹھوڑ یہ ہماری تلنگانہ کی خواتین ہیں جبکہ گورنر سوندرا راجن کا تعلق ٹاملناڈو سے ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اُن کے بارے میں ٹاملناڈو کے باہر کی دنیا میں کم ہی جانکاری ہوگی۔ آئیے ہماری نئی گورنر کے بارے میں کچھ جانکاری حاصل کرتے ہیں۔
گورنر تلنگانہ سوندرا راجن کی پیدائش 2 جون 1961 کو ناگرکوائل، ضلع کنیاکماری میں کماری آنندن اور کرشنا کماری کے ہاں ہوئی۔ والد آنندن سابق رکن پارلیمان ہیں اور ٹاملناڈو کے سینئر کانگریس پارٹی لیڈر رہے۔ ان کے شوہر ڈاکٹر پی سوندرا راجن قابل میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ دونوں کو ایک بیٹا سوگاناتھن سوندرا راجن ہے۔ خود گورنر سوندرا راجن نے بھی مدراس میڈیکل کالج ، چینائی سے ایم بی بی ایس کیا ہوا ہے۔ انھوں نے طبی شعبے میں مزید تعلیم ڈاکٹر ایم جی آر میڈیکل یونیورسٹی، چینائی اور پھر کناڈا سے بھی حاصل کی۔ تاہم، 5 سال میڈیکل فیلڈ سے جڑنے رہنے کے بعد وہ سیاسی شعبے سے سرگرمی کے ساتھ وابستہ ہوگئیں۔
ویسے انھیں بچپن سے ہی سیاست میں دلچسپی رہی، جس کی وجہ شاید ان کی پولیٹیکل فیملی میں پرورش ہے۔ وہ مدراس میڈیکل کالج میں اپنی پڑھائی کے دوران اسٹوڈنٹ لیڈر رہیں۔ روایتی طور پر کانگریس پارٹی فیملی سے تعلق ہونے کے باوجود ٹاملیسائی کو بی جے پی آئیڈیالوجی کی طرف رغبت ہوئی اور وہ زعفرانی پارٹی کے لیے مکمل وقتی کام کرنے لگیں۔ انھوں نے ٹاملناڈو اسٹیٹ بی جے پی یونٹ میں مختلف حیثیت سے کام کیا، جس کی شروعات 1999 میں ساوتھ چینائی ڈسٹرکٹ میڈیکل ونگ سکریٹری کے طور پر ہوئی؛ 2001 میں اسٹیٹ جنرل سکریٹری میڈیکل ونگ؛ 2005 میں آل انڈیا کو۔کنوینر (میڈیکل ونگ فار سدرن اسٹیٹس)؛ 2007 میں اسٹیٹ جنرل سکریٹری؛ 2010 میں اسٹیٹ وائس پریسیڈنٹ بنیں اور پھر 2013 میں نیشنل سکریٹری، آل انڈیا بی جے پی بنائی گئیں۔
تاہم، ٹاملیسائی سوندرا راجن کو ایم پی یا ایم ایل اے بننے کی اپنی تمام کوششوں میں ناکامی ہوئی۔ انھوں نے دو، دو مرتبہ اسمبلی اور پارلیمنٹ الیکشن لڑے۔ انھوں نے حالیہ پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات میں پارٹی کے لیے ریاست بھر میں بڑی سرگرمی سے مہم چلائی، لیکن کبھی خود کامیاب نہیں ہوئیں۔ وہ بی جے پی امیدوار کی حیثیت سے 2006 اور 2011 کے اسمبلی چناو نیز 2009 اور 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں ناکام ہوئی ہیں۔ ان کا بہترین انتخابی مظاہرہ حالیہ لوک سبھا الیکشن میں حلقہ تھوٹھوکوڈی کے لیے 2,15,934 (21.8 فی صد) ووٹوں کے ساتھ دوسرا مقام ہے۔
ڈاکٹر سوندرا راجن #metoo movement کی سپورٹر ہیں اور زور دیتی ہیں کہ کوئی بھی خواتین جنھیں جنسی ہراسانی کا سامنا ہوا ہو، ان کو انصاف ملنا چاہئے۔ انھوں نے ٹاملناڈو میں سنگر چنمائی سریپادا کی جانب سے شاعر اور نغمہ نگار آر وائراموتھو کے خلاف ہراسانی کے الزامات پر فلم کمیونٹی کی خاموشی پر آواز اٹھائی ہے۔ اب دیکھنا ہے تلنگانہ کی اولین خاتون گورنر کی اپنی میعاد میں کیسی کارکردگی رہتی ہے۔ وہ تعلیم اور خاندانی پس منظر کے اعتبار سے قابل اور مضبوط عزائم کی حامل معلوم ہوتی ہیں۔ تاہم، بی جے پی زیر اقتدار مرکزی حکومت نے 2014 سے صرف پارٹی لیڈروں (یعنی سیاسی شخصیتوں) کو گورنر بنانے کی روش اختیار کررکھی ہے۔ چنانچہ جہاں بی جے پی کا ریاستی اقتدار نہیں، وہاں گورنر اور ریاستی حکومت کا تال میل اہمیت اختیار کرجاتا ہے۔ چیف منسٹر کے سی آر نے گورنر نرسمہن کی سبکدوشی پر کچھ اضطراب آمیز اشارے دیئے ہیں۔ اس لئے دیکھنا ہے گورنر سوندرا راجن کے ساتھ سی ایم چندرشیکھر راو کس طرح کام کریں گے؟