ہندوستان میں اقلیتوں بالخصوص سب سے بڑی مائنارٹی کے مذہبی امور میں مداخلت آر ایس ایس اور اس کا سیاسی چہرہ بی جے پی ....دونوں کا محبوب مشغلہ رہا ہے! قارئین بخوبی جانتے ہیں کہ یونیفارم سیول کوڈ ہمیشہ بی جے پی کے ایجنڈے پر رہا۔ واجپائی حکومت تک جب انھوں نے دیکھ لیا کہ اس طرح کے شدید متنازعہ موضوعات کے ساتھ شاید اُن کو ملک بھر میں سیاسی تائید و حمایت اور سب سے بڑھ کر ووٹ حاصل کرنا مشکل ہوگا تو انھوں نے ایسے ایجنڈے کو کچھ عرصہ کیلئے حاشیہ پر رکھ دیا۔ ویسے بھی اُس وقت تک انھیں پارلیمنٹ میں لوک سبھا میں اکثریت حاصل تھی، اور نہ ابھی راجیہ سبھا میں ایسا موقف ہے (مودی حکومت کی حالیہ لوک سبھا الیکشن میں زبردست کامیابی کے لازمی نتیجے کے طور پر آئندہ ایک سال میں بی جے پی ایوان بالا میں بھی اکثریت حاصل کرلے گی!)۔
طلاق ثلاثہ یا تین طلاق دراصل ایک نشست میں ہی شوہر کا اپنی بیوی کو رشتہ زوجیت سے نکال دینے کا عمل ہے جسے طلاق بدعت کہتے ہیں اور قرآن حکیم میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ طلاق میں اس سے گریز کرنے کو احسن طریقہ قرار دیا ہے حالانکہ ایسے طریقے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے یعنی شوہر اور بیوی کا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔ سرور کائنات حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو بتایا کہ طلاق بجائے خود اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بُرا جائز عمل ہے۔ چنانچہ ایسی خوب تو ہماری شریعت ہے جس میں جائز عمل کے بھی بھلے اور بُرے طریقے کو واضح کردیا گیا ہے۔ بھارت کی حکومتی تاریخ میں ایک دو مرتبہ کے علاوہ کبھی کسی حکومت نے مسلم پرسنل لا میں مداخلت کی غلطی نہیں دہرائی۔ مثال کے طور پر تقریباً 35 سال پُرانا شاہ بانو کیس ہے، جس کا طلاق ثلاثہ جیسے معاملے سے تقابل نہیں کیا جاسکتا۔ کیوں؟
ملک بھر میں ہندووں میں Divorce کا تناسب مسلمانوں سے کہیں زیادہ ہے۔ پھر بھی مودی حکومت کو پہلی میعاد سے مسلم خواتین کی فکر دامن گیر ہے۔ اور بی جے پی حکومت کی فکر کرنے کا انداز دیکھئے کہ ایسا بل لوک سبھا میں منظور کرایا ہے جس میں تین طلاق دی جائے تو طلاق مانی ہی نہ جائے گی حالانکہ شرعی رو سے ازدواجی رشتہ مکروہ انداز میں سہی مگر ختم ہوجاتا ہے لیکن وہ لوک سبھا میں اور عنقریب راجیہ سبھا میں متوقع اکثریت کے زعم میں شریعت کے نکات کو سمجھنے تیار ہی نہیں ہیں! تین طلاق بل میں اس سے بدتر گنجائش یہ ہے کہ شوہر کو اس فعل کی سزا کے طور پر تین سال کیلئے جیل بھیج دیا جائے، جسے حکومت کی نظر میں واقع ہوا ہی نہیں۔ جب کسی شوہر نے تین طلاق کہہ دی اور بھارتی قانون کی رو سے طلاق واقع نہیں ہوئی، تو پھر نام نہاد خاطی شوہر کو سزا کس بات کی دی جائے گی؟ افسوس کہ ’فاضل‘ حکومت یہ سمجھنے کو تیار ہے، اور نہ ’قابل‘ اپوزیشن اس معاملے میں کم از کم وزیر قانون کو مطمئن کرنے کی زحمت گوارا کررہی ہے۔ بل کی منظوری کے وقت محض ایوان سے واک آوٹ کردینا کافی نہیں ہے۔
این ڈی اے میں شامل جنتا دل (یونائیٹیڈ) کے علاوہ کانگریس و دیگر پارٹیوں نے تین طلاق بل کی موجودہ شکل میں منظوری کے خلاف احتجاجاً جمعرات کو لوک سبھا سے واک آوٹ کیا۔ کانگریس کا شروع سے موقف ہے کہ یہ بل پارلیمانی اسٹانڈنگ کمیٹی کے پاس بھیجا جائے تاکہ اس کی خامیاں دور ہوسکیں۔ موجودہ حالات میں مودی حکومت سے شاید کسی بھی مسئلہ پر مفاہمت کی امید نہیں رکھی جاسکتی کیوں کہ اس پر اقتدار اور بھرپور اکثریت کا نشہ چڑھا ہوا ہے۔ لوک سبھا کا منظورہ تین طلاق بل جب راجیہ سبھا میں منظور ہوگا تو قانون بن جائے گا اور مسلمانوں پر لاگو ہوگا۔
تین طلاق بل پر لوک سبھا میں بحث کے دوران بائیں بازو کی آر ایس پی (ریولیوشنری سوشلسٹ پارٹی) نے کئی بڑی اپوزیشن پارٹیوں سے کہیں بہتر سوال اٹھائے۔ آر ایس پی ممبر پریم چندرن (حلقہ کولم، کیرالا) نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ مودی حکومت دور کی کوڑی لارہی ہے۔ مسلم خواتین کے حقوق برائے شادی کے تحفظ کا تو بہانہ ہے ، وہ اُن کے شوہروں کو جیل میں ڈالتی جائے گی، پھر اُن لازم کیا جائے گا کہ وہ بیوی بچوں کا گزارہ دیں۔ اچھا خاصا برسرروزگار شخص ’جرم واقع ہوئے بغیر‘ جیل بھیج دیا جائے گا ۔ لامحالہ شوہر کے متعلقین پر مالی بوجھ پڑے گا۔ یہ ہے مسلم خواتین کے حقوق کا تحفظ۔ واہ! پریم چندرن نے ساتھ ہی ’ہجومی تشدد‘ یا Lynching کا بڑا سلگتا موضوع بھی چھیڑ دیا۔ انھوں نے حکومت سے کہا کہ وہ شہریوں کی اتنی ہی فکرمند ہے تو لنچنگ کے خلاف قانون کیوں نہیں لاتی؟ آر ایس پی ممبر کو شاید نہیں معلوم کہ مودی حکومت سے ایسے سوال نہیں پوچھنے چاہئے، کیوں کہ ناپسندیدہ سوالات کے جواب دینا اُن کو ہرگز پسند نہیں!!!